اگرچہ امریکہ کے پرائمری انتخابات کے متعلق جوش و جذبے میں کمی آئی ہے مگر ریپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے کے لیے جاری جنگ شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کی صف اول کی امیدوار سابق وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کو اپنے حریف برنی سینڈرز کی جانب سے ہفتے کو واشنگٹن، ہوائی اور الاسکا میں کاؤکس انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
اگرچہ ان کامیابیوں سے ان دونوں کو حاصل مندوبین کی حمایت کا فرق کم نہیں ہوا مگر اس سے برنی سنڈرز کی مہم میں تیزی ضرور آئی ہے جس کے بعد انہوں نے کہا کہ وہ اب ’’کامیابی کا راہ‘‘ تک رہے ہیں۔ اس وقت ہلری کلنٹن کو 1,243 جبکہ سنڈرز کو 975 مندوبین کی حمایت حاصل ہے۔
پانچ اپریل کو ڈیموکریٹک امیدوار ریاست وسکونسن میں اور پھر نو اپریل کو کم آبادی والی ریاست وائیومنگ میں ایک دوسرے کے مد مقابل ہوں گے۔ ہلری کلنٹن نیویارک میں 19 اپریل کو ہونے والے پرائمری انتخاب پر توجہ دے رہی ہیں جہاں سے وہ ماضی میں سینیٹر منتخب ہو چکی ہیں۔ نیویارک میں 291 مندوبین کی حمایت کے لیے رائے شماری کی جائے گی۔
ریپبلکن پارٹی میں نامزدگی کی دوڑ میں صف اول کے امیدوار اور ارب پتی کاروباری شخصیت ڈونلڈ ٹرمپ اور ٹیکساس کے سینیٹر ٹیڈ کروز کے درمیان ذاتیات پر مبنی نوک جھونک جنگ کی شکل اخیتار کر گئی ہے۔
اگلا ریپبلکن پرائمری انتخاب 5 اپریل کو وسکونسن میں ہو گا۔ کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ اوہائیو کے گورنر جان کیسک کا آخری انتخاب ثابت ہو سکتا ہے۔
ریپبلکن امیدوار ملک کی شمال مشرقی ریاستوں میں متوقع پرائمری انتخابات میں مندوبین کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
19 اپریل کو نیویارک میں پرائمری انتخابات کے بعد 26 اپریل کو کنکٹیکٹ، ڈیلاوئیر، پینسلوینیا، میری لینڈ اور روڈ آئی لینڈ میں انتخابات ہوں گے۔
ریپبلکن پارٹی میں امیدوار کو براہ راست نامزدگی حاصل کرنے کے لیے 1,237 مندوبین کی حمایت درکار ہوتی ہے۔ ورنہ مندوبین کے کنونشن میں فاتح کا تعین کرنے کے لیے رائے شماری کے کئی دور کرائے جا سکتے ہیں۔