رسائی کے لنکس

امریکہ نے ذکی الرحمن لکھوی کی سزا کو حوصلہ افزا قرار دے دیا


ذکی الرحمن لکھوی، فائل فوٹو
ذکی الرحمن لکھوی، فائل فوٹو

امریکہ نے پاکستان کی ایک عدالت کی طرف سے ذکی الرحمن لکھوی کو سنائی جانے سزا کو ایک حوصلہ افزا اقدام قرار دیا ہے، لیکن ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ لکھوی کے مبینہ جرائم دہشت گردی کی مالی معاونت سے بہت آگے ہیں اور پاکستان کو لکھوی کو ممبئی سمیت دہشت گردی کے دیگر حملوں میں بھی سزاوار ٹھرانا ہو گا۔

تاہم پاکستان کے دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنے ملکی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کرنے پر عمل پیرا ہے اور ممبئی حملے کا مقدمہ اس لیے تعطل کا شکار ہے کیونکہ بھارت اس مقدمے کے گواہوں کو پاکستانی عدالت میں پیش کرنے پر تیار نہیں ہے۔

یادر ہے کہ لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے گزشتہ جمعے کو کالعدم تنظیم لشکرِ طیبہ کے مبینہ رہنما ذکی الرحمٰن لکھوی کو دہشت گردوں کی مالی معاونت سمیت تین مقدمات میں مجموعی طور پر 15 سال قید اور تین لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

امریکہ کے محکمہ خارجہ کے وسطیٰ و جنوبی ایشیا سے متعلق امور کے بیورو نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ لکھوی کو سنائی جانے والی سزا امریکہ کے لیے حوصلہ افزا ہے،لیکن بیورو کے مطابق لکھوی کے مبینہ جرائم دہشت گردی کے مالی معاونت سے بہت آئے ہیں۔

پاکستان کے دفتر خارجہ نے اپنی متعد ٹوٹیس کہا ہے کہ پاکستان ملکی قوانین کے تحت اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پوری کر رہا ہے اور ان کے بقول تفتیش اور استغاثہ کی کارروائی کے بعد قانون کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے سنائی جانے والی سزائیں پاکستان کے قانونی نظام کے موثر ہونے کا مظہر ہیں۔ ان کے بقول پاکستان کا قانونی نظام بیرونی عوامل اور اثرات سے آزاد رہ کر کام کرتا ہے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کی عمارت، فائل فوٹو
پاکستان کے دفتر خارجہ کی عمارت، فائل فوٹو

دفتر خارجہ کے ترجمان نے یہ واضح کیا کہ ممبئی حملے کا مقدمہ اس لیے تعطل کا شکار ہے کیونکہ بھارت اس مقدمے کے گواہوں کو پاکستانی عدالتوں میں بھیجنے پر تیار نہیں ہے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے امریکی محکمہ خارجہ سے کہا ہے کہ وہ بھارت کی طرف سے دہشت گردی کی سرگرمیوں کے لیے میبنہ طور مالی وسائل کی فراہمی اور منصوبہ بندی کرنے کے مبینہ اقدامات پر اپنے تحفظات کا اظہار کرے جن کے ناقابل تردید شواہد فراہم کیے جا چکے ہیں۔

یاد رہے کہ حال ہی میں نئی دہلی اور اسلام آباد کی طرف سے ایک دوسرے پر دہشت گرد عناصر کی حمایت کرنے کے الزامات زیادہ شدت کے ساتھ عائد کیے گئے ہیں، لیکن دونوں ملک ہی ایسے الزامات کو مسترد کرتے آ رہے ہیں۔

دوسری جانب امریکہ کے 'ووڈرو وِلسن سینٹر' مین ایشیا کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان کی ٹویٹس سے اس جانب اشارہ ملتا ہے کہ مسقبل میں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی۔

ان کے خیال میں پاکستان امریکہ تعلقات میں ان مبینہ دہشت گرد گروپوں کی وجہ سے تناؤ بڑھ سکتا ہے جن کی توجہ مبینہ طور پر بھارت پر مرکوز ہے۔کیونکہ افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے بعد اس کی پاکستان سے متعلق افغانستان میں دہشت گردی سے منسلک کشیدگی میں کمی آئے گی۔

ان کے خیال میں اس صورت حال کو امریکہ اور بھارت کے مزید گہرے ہوتے ہوئے تعلقات کے تناظر میں دیکھنا ہو گا۔

بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار حسن عسکری کا کہنا ہے کہ امریکہ پاکستان کے اقدامات کو سراہنے کے ساتھ ساتھ پاکستان پر دباؤ بھی رکھنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف ان کے بقول امریکہ بھارت کا ایک بڑا شراکت دار ہونے کے ناطے ایسے بیانات دے رہا ہے جو نئی دہلی کے لیے باعث اطمینان ہوں۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے بعض امور میں سرد مہری ہے اور جو بائیڈن انتظامیہ کے دور میں بھی پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بعض معاملات میں سرد مہری برقرار رہنے کی توقع ہے۔

لیکن تجزیہ کار حسن عسکری کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن انتظامیہ میں بھی پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی نوعیت ایسی ہی رہے گی۔ جب کہ بعض امور میں تعاون رہے گا۔ لیکن دوسری طرف سے نئی انتظامیہ میں بھارت امریکہ کی شراکت داری برقرار رہے گی۔

تاہم حسن عسکری کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کی عدالت میں معتبر شہادتیں پیش کی جائیں گی تو عدالت فیصلہ کر دے گی۔ لیکن ان کے بقول جہاں تک ممبئی کیس کا تعلق ہے، بھارت نے پاکستانی عدالتوں میں اس مقدمے کے گواہوں کو ابھی تک پیش نہیں کیا ہے اور ان کے بقول جب تک ایسا نہیں ہوتا، اس وقت تک پاکستان کی عدالتوں کے لیے فیصلہ کرنا شاید ممکن نہ ہو۔

وہ کہتے ہیں کہ بھارت کا بیان اہمیت کا حامل نہیں ہے کیونکہ ان کے بقول پاکستان جو کچھ بھی کرے، بھارت اس پر تنقید کرے گا جس کی وجہ پاکستان اور بھارت کی مخاصمت ہے۔

یاد رہے کہ 26 نومبر 2008 کو بھارت کے شہر ممبئی میں ہونے والے حملوں میں متعدد غیر ملکی شہریوں سمیت 160 سے زائد افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ بھارت نے اس حملے کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام لشکرِ طیبہ کے دیگر رہنماؤں سمیت ذکی الرحمٰن لکھوی پر عائد کیا تھا۔ جس کے بعد ذکی الرحمٰن لکھوی کو حراست میں لیا گیا تھا۔ لیکن بعد ازاں پاکستان کی ایک عدالت نے انہیں 2014 میں ضمانت پر رہا کر دیا تھا۔

XS
SM
MD
LG