رسائی کے لنکس

امریکہ میں غربت میں کمی کے لیے جدوجہد


South Korea's president-elect Park Geun-hye, center, poses with an official certificate stating her election victory, Seoul, December 20, 2012.
South Korea's president-elect Park Geun-hye, center, poses with an official certificate stating her election victory, Seoul, December 20, 2012.

امریکہ میں سرکاری عہدے دار سماجی طور پر سرگرم گروپ اور اقتصادی ماہرین غربت کی اونچی شرح کو کم کرنے کے طریقے معلوم کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ مردم شماری کے بیورو کے مطابق پانچ عشرے قبل جب اس قسم کے اعداد و شمار اکٹھے کرنا شروع کیے گئے تھے امریکہ میں غریب لوگوں کی تعداد آج کل سب سے زیادہ ہے۔

مردم شماری کے بیورو کے مطابق امریکہ میں2009 ء میں غربت کی زندگی گزارنے والوں کی شرح 14.3 فیصد تھی۔ ایک سال پہلے کے مقابلے میں یہ شرح پوری ایک فیصد زیادہ ہے۔ جہاں تک مجموعی اعداد و شمار کا تعلق ہے، بیورو کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال چار کروڑ چھتیس لاکھ افراد غربت کی زندگی گزار رہے تھے۔ امریکہ میں ہر ایسا گھرانہ جو چار افراد پر مشتمل ہو اور جس کی سالانہ آمدنی بائیس ہزار ڈالر سے کم ہوغریب گھرانے کی تعریف میں آتا ہے۔

امریکہ میں غربت میں کمی کے لیے جدوجہد
امریکہ میں غربت میں کمی کے لیے جدوجہد

نیشنل کونسل آف نیگرو ویمن کی Avis Jones-DiWeever نے مردم شماری کے بیورو کے اعداد وشمار کا تفصیلی معائنہ کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ امریکہ میں ہر چار میں سے ایک افریقی امریکی یا ہسپانوی اور ہر پانچ بچوں میں سے ایک غربت کی زندگی گزارتا ہے ’’سچی بات یہ ہے کہ ان اعداد و شمار سے لوگوں کی آنکھیں کُھل جانی چاہئیں۔ یہ وہ وقت ہے جب ایک بار پھر سنجیدگی سے غربت کو ختم کرنے کی کوشش کی جانی چاہیئے۔ آج کل غربت کے خلاف اقدام کرنے کی ضرورت اس لیے بھی ہے کیوں کہ اب لوگوں کے پاس برے وقتوں کے لیے جمع پونجی ختم ہو چکی ہے‘‘۔

لیکن گذشتہ ہفتے واشنگٹن میں غربت کا تجزیہ کرنے والوں کی میٹنگ میں، Deloitte Consulting کے ڈائریکٹر ویڈ ہارن نے انتباہ کیا کہ امریکہ میں آج کل جو سیاسی ماحول ہے اس میں سرکاری اخراجات میں اضافہ کرنا بہت مشکل ہوگا۔ انھوں نے کہا ’’مجھے یقین نہیں کہ آج کل سرکاری اخراجات میں کوئی بڑا اضافہ کرنا آسان ہو گا۔ بلکہ قرضوں اور بجٹ میں خسارے کو جو توجہ دی جار ہی ہے اس کی روشنی میں ہو سکتا ہے کہ ہمیں سرکاری اخراجات میں کمی کا آغاز کرنا پڑے ‘‘۔

ہارن نے کہا کہ ہمیں ایسی اقتصادی پالیسیاں وضع کرنی چاہئیں جن سے نجی شعبے میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ غربت کم کرنے کے طریقوں پر عمل کرنا چاہیئے۔

بے روزگاری کی اونچی شرح کے ساتھ غربت میں اضافہ معیشت کے ایسے شعبوں میں خاص طور سے نمایاں ہے جس میں زیادہ تر مرد کام کرتے ہیں جیسے تعمیراتی اور سامان تیار کرنے کی صنعتیں۔

سینٹرآن بجٹ اینڈ پالیسی پائرارٹیز کی LaDonna Pavetti کہتی ہیں کہ کئی امریکی ریاستوں نے نجی شعبے میں ملازمتوں کے لیے سرکاری امداد کے کئی کامیاب پروگرام شروع کیے ہیں ’’ہم نے دیکھا ہے کہ ان پروگراموں سے زبردست فائدہ ہوا ہے، خاص طور سے چھوٹے کاروباری اداروں کو۔ ہوا یہ ہے کہ ان چھوٹے کاروباری اداروں کے لیے یہ ممکن ہوا ہے کہ مانگ میں کمی کے باوجود یہ ادارے اپنا کاروبار جاری رکھ سکے ہیں۔ بلکہ کچھ اداروں نے اپنے کاروبار کو وسعت دی ہے اوراس طرح روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے ہیں‘‘۔

Pavetti کہتی ہیں کہ اب ان میں سے بہت سے پروگراموں میں پیسہ ختم ہو رہا ہے اور ہوسکتا ہے کہ لاکھوں افراد بے روزگار ہو جائیں۔

لیکن امریکن انٹرپرائز انسٹیٹوٹ کے Nicholas Eberstadt نے انتباہ کیا ہے کہ سرکاری امداد سے چلنے والے روزگار کے مواقع کو امریکی معیشت کا مستقل حصہ بنانا صحیح نہیں ہو گا ’’مغربی یورپ کے بہت سے ملکوں میں جنھوں نے اس قسم کے بعض پروگراموں پر عمل کیا ہے، وقت کے ساتھ ساتھ لیبر فورس میں لچک ختم ہو گئی ہے اور نئے لوگوں کے لیے روزگار حاصل کرنے میں رکاوٹیں پیدا ہوگئی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں اس قسم کے پروگراموں کے بارے میں بہت زیادہ محتاط ہونا چاہیئے‘‘۔

صدر اوبامانے کہا کہ ان کی اقتصادی پالیسیوں کی بدولت، جیسے وہ رقم جو معیشت میں جان ڈالنے پر خرچ کی گئی، لاکھوں امریکی گھرانے غربت کے چنگل میں جانے سے بچ گئے ہیں۔

امریکیوں کو آج کل جن اقتصادی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، صدر نے اپنے پیش رو ، جارج ڈبلیو بُش کی پالیسیوں کو ان کا ذمے دار قرار دیا ہے ۔ لیکن حزبِ اختلاف کے ریپبلیکن ارکان نے کہا ہے کہ حکومت کے بھاری اخراجات کی وجہ سے صورتِ حال اور زیادہ خراب ہو گئی ہے۔

غربت کے بارے میں نئے اعداد وشمار امریکی کانگریس کے نومبر کے وسط مدتی انتخابات سے چند ہفتے پہلے جاری کیے گئے ہیں۔

XS
SM
MD
LG