رسائی کے لنکس

صدراوباما کی مقبولیت کا ایک جائزہ


کیپیٹل ہل (فائل فوٹو)
کیپیٹل ہل (فائل فوٹو)

رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق، صدر براک اوباما کی مقبولیت کی شرح مسلسل کم ہورہی ہے۔ بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نومبر کے وسط مدتی انتخابات میں امریکی کانگریس کے کم از کم ایک ایوان پر ریپبلیکنز کے دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے امکانات بہت روشن ہیں۔

صدر اوباما کے لیے سیاسی حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اے بی سی نیوز اور واشنٹگن پوسٹ کے تازہ ترین پول کے مطابق، سروے میں شامل تقریباً 60 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ صدر اوباما ملک کے لیے صحیح فیصلے کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور صرف43 فیصد لوگ معیشت کے بارے میں ان کی پالیسیوں کو صحیح سمجھتے ہیں۔ مقبولیت کی یہ شرح پہلے کے مقابلے میں اور کم ہو گئی ہے۔

واشنگٹن میں قائم امریکن انٹرپرائزانسٹی ٹیوٹ کی کارلین بومین کے مطابق، اوباما کے بارے میں رائے عامہ کے منفی رجحانات میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا ہے۔ پیو سینٹر کے حالیہ جائزے کے مطابق، ایک سال قبل کے مقابلے میں اب زیادہ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ اوباما ملک کی معیشت پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ لیکن بُری خبر یہ ہے کہ زیادہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی وجہ سے معیشت کی حالت بہتر نہیں بلکہ اور زیادہ خراب ہو رہی ہے۔

بیشتر حالیہ جائزوں کے مطابق، صدر کی مقبولیت کی شرح تقریباً پچاس فیصد یا اس سے کم ہے۔ اس سے ڈیموکریٹس کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں جو نومبر کے وسط مدتی انتخابات میں امریکی کانگریس میں اپنی اکثریت برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صدر کی مقبولیت کی شرح کم ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کانگریس کے وسط مدتی انتخاب میں صدر کی پارٹی کو نقصان ہو گا۔ تاریخ کا فیصلہ بھی یہی رہا ہے۔ چند مستثنیات کو چھوڑ کر ، وائٹ ہاؤس کو کنٹرول کرنے والی پارٹی، ہمیشہ نئے صدر کے پہلے وسط مدتی انتخابات میں کانگریس میں کچھ نشستیں کھو دیتی ہے۔

ڈیموکریٹس یہ آس لگائے ہوئے ہیں کہ نومبر میں انتخاب کی تاریخ تک اقتصادی بحالی کے آثار نظر آ نے لگیں گے لیکن عام لوگوں کو اب تک اس کا یقین نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب سے لے کر نومبر تک، انتخابی مہم میں اور کانگریس کے ڈیموکریٹک امیدواروں کے لیے پیسہ اکٹھا کرنے کے دوران، صدر کے سامنے یہ مشکل کام ہے کہ وہ لوگوں کو قائل کریں۔ انھوں نے کہا ہے کہ ’’آپ کو یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ ہم صحیح سمت میں جا رہے ہیں۔ دوسری پارٹی بنیادی طور پر وہی خیالات پیش کر رہی ہے جن کی وجہ سے ہمیں یہ برے دن دیکھنے پڑے ہیں۔ اس کے سوا وہ اور کچھ نہیں کر رہے ہیں‘‘۔

صدر براک اوباما
صدر براک اوباما

ریپبلیکنز کا خیال ہے کہ رائے عامہ کے جائزوں میں صدر کی مقبولیت کی شرح جتنی کم ہوگی، اتنا ہی انہیں فائدہ ہوگا۔ ریپبلیکنز کو 435 رکنی ایوانِ نمائندگان پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے مزید 39 نشستیں اور سینیٹ میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے دس مزید نشستیں حاصل کرنی ہیں۔ بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں ملک میں نومبر کے انتخابات کے لیے ریپبلیکنز کے حق میں فضا ہموار ہو رہی ہے۔ ریپبلیکنز کو قدامت پسند عوامی کارکنوں سے بھی مدد ملی ہے جو ٹی پارٹی تحریک کے حامی ہیں۔

حال ہی میں صدارتی ترجمان رابرٹ گبز تک نے اعتراف کیا کہ اس سال ایوان نمائندگان میں بہت سی سیٹوں کے لیے سخت مقابلہ ہو گا اور ان کے نتیجے میں نومبر میں ریپبلیکنز کو اکثریت حاصل ہو سکتی ہے۔

تجزیہ کار چارلی کُک نے وائس آف امریکہ سے کہا کہ ان کے خیال میں ریپبلیکنز ایوان نمائندگان کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیں گے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس سال ڈیموکریٹس کے مقابلے میں ریپبلیکنز میں بہت زیادہ جوش و جذبہ نظر آ رہا ہے۔ ان کے مطابق’’ڈیموکریٹس میں توانائی اور جوش و جذبے کی کمی ہے ۔ وہ بہت سست نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف ریپبلیکنز اور قدامت پسندوں میں بڑا جوش و خروش ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ان کی بڑی تعداد ووٹ ڈالنے آئے گی۔ ویسے بھی وسط مدتی انتخابات میں عام طور سے ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد صدارتی انتخاب کے سال کے مقابلے میں ایک تہائی کم ہوتی ہے‘‘ ۔

اس سال کی انتخابی مہم میں بظاہر ریپبلیکنز کو برتری حاصل ہے لیکن رائے عامہ کے جائزوں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ا ن میں کچھ کمزوریاں بھی ہیں۔ تجزیہ کار کارلین بومین کہتی ہیں کہ ’’ڈیموکریٹس کی طرح ، کانگریس میں ریپبلیکنز کی ساکھ بھی اچھی نہیں ہے۔ ریپبلیکن پارٹی ڈیموکریٹک پارٹی کے مقابلے میں زیادہ غیر مقبول ہے۔ لوگ اب بھی خود کو ڈیموکریٹس کہلانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ ملک کو درپیش بڑے بڑے مسائل سے نمٹنے میں لوگوں کو ریپبلیکنز کے مقابلے میں ڈیموکریٹس پر زیادہ اعتماد ہے‘‘۔

ماہرین کہتے ہیں کہ کانگریس کے ایک یا دونوں ایوانوں کے ریپبلیکنز کے کنٹرول میں چلے جانے سے، صدر اوباما کی حکومت کرنے کی صلاحیت پر بہت زیادہ اثر پڑے گا۔ نہ صرف یہ کہ ریپبلیکنز صدر کے قانون سازی کے ایجنڈے کو بلاک یا ملتوی کر سکیں گے، بلکہ ایوان نمائندگان میں اکثریت حاصل کرنے سے، انہیں کانگریس میں تفتیشی سماعتیں کرنے کا اختیار بھی مل جائے گا۔ اگلے دو برسوں کے دوران جب صدر 2012ء میں اپنی عہدے کے دوسری مدت کے انتخاب کی تیاری کر رہے ہوں گے، ریپبلیکنز کانگریس میں سماعتیں منعقد کر سکیں گے۔

XS
SM
MD
LG