رسائی کے لنکس

عراق: امریکہ کے فوجی اڈے پر میزائلوں سے حملہ، اہلکار زخمی ہونے کی اطلاعات


فوجی اڈے پر حملے میں پانچ اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ (فائل فوٹو)
فوجی اڈے پر حملے میں پانچ اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ (فائل فوٹو)
  • عراق کے مشرق میں صوبہ الانبار میں واقع ’عین الاسد ایئر بیس‘ پر میزائلوں سے حملہ کیا گیا۔
  • دو روسی ساختہ کاتیوشا میزائل فوجی اڈے کے اندر گرنے کی اطلاعات ہیں۔
  • میزائلوں کے حملے میں فوجی اڈے پر موجود امریکہ کے پانچ اہلکار زخمی ہوئے ہیں جن میں ایک کی حالت تشویشناک ہے۔
  • امریکی حکام حملے سے ہونے والے مزید نقصانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
  • حملے کی ذمہ داری فوری طور پر کسی نے قبول نہیں کی۔

ویب ڈیسک _ عراق میں امریکہ کے فوجی اڈے پر حملے میں پانچ اہلکار زخمی ہوئے ہیں جن میں ایک اہلکار کے شدید زخمی ہونے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔

عراقی سیکیورٹی ذرائع سے سامنے آنے والی معلومات کے مطابق پیر کو عراق کے مشرق میں صوبہ الانبار میں واقع ’عین الاسد ایئر بیس‘ پر دو روسی ساختہ کاتیوشا میزائل داغے گئے ہیں۔

ایک عراقی سیکیورٹی عہدیدار نے خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ داغے گئے راکٹ فوجی اڈے کے اندر گرے ہیں جب کہ امریکی حکام نے بھی فوجی بیس پر حملے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کی تصدیق کی ہے۔

عراق میں فوجی بیس پر حملہ ایسے موقع پر ہوا ہے جب ایران نے فلسطینی عسکری تنظیم حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے تہران میں قتل کا بدلہ لینے کی دھمکی دی تھی۔

گزشتہ ہفتے اسماعیل ہنیہ تہران میں قتل کر دیے گئے تھے حب کہ لبنان میں اسرائیلی حملے میں حزب اللہ کے سینئر کمانڈر فواد شکر ہلاک ہوئے تھے۔ مذکورہ رہنماؤں کی ہلاکت کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں ایران اور اس کی اتحادی عسکری تنظیموں کی جانب سے حملوں کی نئی لہر کے خدشات موجود ہیں۔

البتہ یہ واضح نہیں ہے کہ امریکی فوجی بیس پر حملے سے ایران کا کسی قسم کا تعلق ہے یا نہیں۔

گزشتہ ہفتے ایران نے الزام لگایا تھا کہ اسرائیل کی حمایت کے سبب تہران میں اسماعیل ہینہ کے قتل کی ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے۔

امریکی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’رائٹرز‘ سے گفتگو میں کہا کہ فوجی اڈے پر پیر کو میزائل حملے میں ایک امریکی اہلکار شدید زخمی ہوا ہے۔

حکام کا کہنا تھا کہ زخمیوں کی تعداد کی اب تک ابتدائی تفصیلات سامنے آئی ہیں اس میں تبدیلی کے امکانات موجود ہیں۔

ایک عہدیدار نے کہا کہ فوجی اڈے پر موجود اہلکار حملے کے بعد ہونے والے نقصانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔

امریکہ نے گزشتہ ہفتے عراق میں فضائی کارروائی کی تھی جس میں ہلاک ہونے والے افراد کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ یہ عسکریت پسند امریکہ اور اتحادی افواج کے لیے خطرہ تھے اور ڈرون حملوں کی تیاری میں مصروف تھے۔

اسماعیل ہنیہ کے ایرانی دارالحکومت میں قتل کے بعد امریکہ دیکھ رہا ہے کہ تہران کس طرح اس پر ردِ عمل ظاہر کرے گا۔ اسماعیل ہنیہ کی موت اسرائیل اور حماس میں جاری جنگ کے دوران فلسطینی عسکری گروہوں کے رہنماؤں کی ہلاکتوں کے سلسلے کا حصہ ہے۔

امریکی محکمۂ دفاع (پینٹاگان) اعلان کر چکا ہے کہ امریکہ مشرقِ وسطیٰ میں مزید لڑاکا طیارے اور جنگی بحری جہاز تعینات کر رہا ہے۔ تاکہ ایران اور اس کی اتحادی عسکری تنظیموں حماس اور حزب اللہ سے ممکنہ خطرات کے مقابلے میں دفاع کو مضبوط کیا جا سکے۔

عراق وہ ملک ہے جو ایران اور امریکہ دونوں ممالک کا اتحادی ہے۔ ایک جانب عراق میں امریکہ کے لگ بھگ ڈھائی ہزار فوجی اہلکار موجود ہیں۔ تو دوسری طرف ایران کی اتحادی ملیشیا عراق کی سرکاری فورسز سے منسلک ہے۔

گزشتہ برس اکتوبر میں غزہ میں حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے عراق میں دونوں جانب سے ایک دوسرے پر حملوں کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔

’رائٹرز‘ نے عراقی حکومتی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا ہے کہ عراق کی حکومت چاہتی ہے کہ امریکہ کی قیادت میں موجود اتحادی افواج اس کی سرزمین سے رواں برس ستمبر تک انخلا کر لیں۔ اس حوالے سے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے جس میں امریکہ کے کچھ فوجی بطور مشیر عراق میں موجود رہیں گے۔

عراق مسلسل کوشش کر رہا ہے کہ وہ ایران کے حمایت یافتہ عسکری گروہوں کو کنٹرول کرے جو سات اکتوبر 2023 کو غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد عراق اور اس کے پڑوسی ملک شام میں متعدد بار امریکی فورسز پر حملے کر چکے ہیں۔

عراق کے وزیرِ اعظم محمد شیاع السوڈانی نے گزشتہ اتوار کو امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن سے گفتگو کی تھی۔

ایک عراقی عہدیدار نے بتایا کہ امریکہ کے وزیرِ خارجہ نے وزیرِ اعظم شیاع سے خطے میں کشیدگی کم کرنے کے لیے مدد کی درخواست کی اور کہا کہ وہ ایران کو راضی کریں کہ وہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد ردِ عمل میں نرمی برتے۔

ایران اسماعیل ہنیہ کے تہران میں قتل کا الزام اسرائیل پر عائد کرتا رہا ہے۔ تاہم اسرائیل نے براہِ راست اس قتل کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے۔

امریکہ کی فوج کی سنیٹر کمانڈ کے کمانڈر جنرل مائیکل کوریلا بھی مشرقِ وسطیٰ میں موجود ہیں۔

’رائٹرز‘ کے مطابق ایک امریکی عہدیدار کا کہنا تھا کہ اگر ایران اسرائیل پر حملہ کرتا ہے تو اس حوالے سے باہمی ہم آہنگی کے لیے جنرل مائیکل کوریلا اتحادیوں سے بات چیت میں مصروف ہیں۔

خطے میں یہ کشیدگی ایسے وقت میں بڑھ رہی ہے جب غزہ میں جاری جنگ کو 10 ماہ مکمل ہو گئے ہیں۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان حالیہ تنازع گزشتہ برس سات اکتوبر 2023 کو حماس کے جنوبی اسرائیلی علاقوں پر دہشت گرد حملے کے بعد شروع ہوا تھا۔

حماس کے حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق لگ بھگ 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں فوجی اہلکاروں سمیت عام شہری بھی شامل تھے۔

حماس نے حملے میں لگ بھگ ڈھائی سو افراد کو یرغمال بنا لیا تھا جن میں سے سو سے زائد افراد کو نومبر 2023 میں کچھ دن کی عارضی جنگ بندی معاہدے کے تحت رہا کر دیا گیا تھا۔

اسرائیلی حکام کے مطابق سو کے قریب افراد اب بھی حماس کی تحویل میں ہیں جب کہ 40 کے قریب یرغمالوں کی اموات ہو چکی ہے۔

اسرائیل نے حماس کے حملے کے فوری بعد غزہ کا محاصرہ کر لیا تھا اور بمباری شروع کر دی تھی۔

حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے محکمۂ صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں لگ بھگ 39 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بچوں اور خواتین کی اکثریت ہے۔

اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG