رسائی کے لنکس

’’پاکستان سلامتی کے فیصلے خود کرنا چاہتا ہے‘‘


’’پاکستان اپنی ملکی سلامتی کے حوالے سے خود فیصلے کرنا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں وہ امریکہ کا دباؤ قبول نہیں کرے گا۔‘‘

سینیٹر رینڈ پال کی طرف سے گزشتہ ماہ امریکی سینیٹ میں پاکستان کیلئے ہر طرح کی امداد روکنے سے متعلق بل متعارف کرائے جانے کے بعد ایسا ہی ایک بل جنوبی کیرولائنا اور کینٹکی کے کانگریس مین مارک سین فورڈ اور ٹامس میسی نے اس ہفتے ایوانِ نمائیندگان میں پیش کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ اور بین الاقوامی ترقی کے امریکی ادارے یو ایس ایڈ کو امریکی ٹیکس دہندگان کی رقوم پاکستان بھیجنے سے روکا جائے۔ عرف عام میں ان دونوں بلوں کا مقصد پاکستان کو ہر طرح کی اقتصادی امداد دینے پر پابندی عائد کرنا ہے۔

امریکہ کے معروف تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوٹ میں فارن پالیسی پروگرام کیلئے سینئر فیلو ڈاکٹر وانڈا فیلباب۔براؤن نے ایک خصوصی انٹرویو میں ہمیں بتایا کہ یہ اقدام امریکہ میں پاکستان کے حوالے سے شدید مایوسی کو ظاہر کرتا ہے۔ پاکستان دہشت گرد تنظیم حقانی نیٹ ورک کی حمایت ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہے اور طالبان افغانستان میں حملے کر کے بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا رہے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ پاکستان کے فوجی حکام اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ وہ حقانی نیٹ ورک اور طالبان کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ تاہم پاکستان کی سول انتظامیہ اور خاص طور پر سابق وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ اُنہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ حقانی نیٹ ورک اور طالبان کی قیادت کہاں موجود ہے۔ اُنہوں نے اُن کے خلاف کارروائی کرنے پر بھی آمادگی کا اظہار کیا تھا۔

ڈاکٹر وانڈا نے کہا کہ پاکستان نے جو کارروائی کی ہے وہ محض جزوی طور پر کی ہے۔ مثال کے طور پر اُس نے تحریک طالبان پاکستان کے خلاف بھر پور کارروائی کی ہے اور چونکہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد کی ہر جگہ نگرانی ممکن نہیں ہے، لہذا اس کارروائی کے نتیجے میں تحریک طالبان پاکستان اور لشکر طیبہ کے کچھ لیڈر بھاگ کر افغانستان چلے گئے تھے۔ اس کے بعد پاکستان افغانستان کی حکومت کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے اسے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔

یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں جنوبی ایشیاء سے متعلق شعبے کے شریک نائب صدر ڈاکٹر معید یوسف نے ایک خصوصی گفتگو میں ہمیں بتایا کہ پاکستان کا خیال ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنی ناکامیوں کے حوالے سے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتا ہے جبکہ امریکہ سمجھتا ہے کہ اگر پاکستان اپنا رویہ تبدیل کر لے تو افغانستان میں جنگ جیتی جا سکتی ہے۔ معیدیوسف کہتے ہیں کہ اُن کے خیال میں یہ دونوں باتیں ہی درست نہیں ہیں اور حقیقت ان دونوں کے درمیان میں ہے۔ اس کے لئے بہتر حل یہی ہے کہ امریکہ اور پاکستان دونوں انتہائی صاف گوئی کے ساتھ ایک دوسرا کا نقطہ نظر سمجھیں اور باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔

لیکن ڈاکٹر وانڈا کا کہنا تھا کہ امریکی مایوسی نئی نہیں ہے لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے اس بیانیے کی شدت کو بڑھا دیا ہے اور پاکستان کی فوجی امداد معطل کر دی ہے۔ ڈاکٹر وانڈا کے خیال میں پاکستان اپنی ملکی سلامتی کے حوالے سے خود فیصلے کرنا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں وہ امریکہ کا دباؤ قبول نہیں کرے گا۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ اگر وہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف بھرپور کارروائی کرتا ہے تو یہ خود پاکستان کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اور دہشت گردوں کی طرف سے پاکستان کے اندر حملے بڑھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پنجاب طالبان جیسی دیگر دہشت گرد تنظیموں کو بھی پاکستان کے اندر حملے کرنے کی ترغیب مل سکتی ہے۔

ڈاکٹر وانڈا کہتی ہیں کہ امریکہ میں اب اس حوالے سے ماحول تبدیل ہو چکا ہے اور پاکستان امریکہ میں ایسے کئی دوستوں سے محروم ہو چکا ہے جو اس سے پہلے اُس کی حمایت کرتے تھے۔ اُن کا کہنا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کے حوالے سے مسئلہ صرف پاکستان کے رضامند ہونے کا نہیں ہے بلکہ اس سلسلے میں ایسی بھرپور کارروائی کیلئے پاکستان کی صلاحیت میں کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ وہ سمجھتی ہیں امریکہ اور افغانستان دونوں حقانی نیٹ ورک پر پاکستان کے اثرورسوخ کو بڑھا چڑھا کر پیش کر ہے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔

امریکہ کے ایک اور معروف تھنک ٹینک اسٹمسن سینٹر میں جنوبی ایشیائی شعبے کے ڈائریکٹر سمیر لالوانی نے بھی وائس آف امریکہ اُردو کے پروگرام ویو 360 میں اس بات کی تائید کی کہ اب طالبان اور حقانی نیٹ ورک پر پاکستان کا وہ اثرورسوخ نہیں رہا جو ماضی میں تھا۔

ڈاکٹر وانڈا کے خیال میں یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان ایک ایسا مضبوط اور مستحکم افغانستان نہیں چاہتا جو بھارت کا اتحادی ہو اور بھارت کے ساتھ ملکر پاکستان کیلئے خطرات پیدا کرے۔ یوں پاکستان افغانستان کو کمزور رکھنے کیلئے حقانی نیٹ ورک اور پنجاب طالبان جیسی تنظیموں کو استعمال کرتا رہے گا۔

اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر وانڈا کہتی ہیں کہ امریکہ کو بھی پاکستان پر دباؤ بڑھانے میں احتیاط سے کام لینا چاہئیے کیونکہ ایک مرحلے پر پہنچ کر ایسا دباؤ نہ صرف غیر مؤثر ہو سکتا ہے بلکہ اس کے نتائج بھی مختلف ہو سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ خطے میں امریکہ کا مفاد اب افغانستان تک محدود نہیں رہا بلکہ وہ افغانستان میں رہ کر چین اور روس کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ایران پر نظر رکھتے ہوئے خطے میں بھارت کا اثرورسوخ بڑھا کر چین کے مقابلے میں کھڑا کرنا چاہتا ہے۔

ایسی صورت حال میں پاکستان کیلئے کیا آپشنز ہیں؟ اس بارے میں ڈاکٹر وانڈا کہتی ہیں کہ پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ وہ ملک سے غربت کا خاتمہ کرے ، تعلیم عام کرے اور ملک کے تمام حصوں میں بجلی اور گیس کی فراہمی جیسی بنیادی سہولتوں کو بہتر بنائے کیونکہ ان سہولتوں کے نہ ہونے سے ایسے حالات جنم لیتے ہیں جن میں انتہا پسندی کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔

پاکستان۔امریکہ تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے ڈاکٹر وانڈا کہتی ہیں کہ فی الوقت یہ تعلقات انتہائی خراب ہیں اور مستقبل قریب میں ان کے بہتر ہونے کی کوئی اُمید نہیں ہے۔ تاہم اُنہوں نے اُمید ظاہر کی کہ دونوں ملک صدر ٹرمپ کی ٹویٹس کو ایک طرف رکھتے ہوئے صاف دلی اور ایمانداری سے مزاکرات کریں گے اور تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے راہیں تلاش کریں گے۔ تاہم اگر امریکی سینیٹ اور ایوان نمائیندگان میں پاکستان کیلئے ہر قسم کی امداد ختم کرنے کا بل منظور کر لیا جاتا ہے تو پاکستان فوجی اور اقتصادی امداد کیلئے چین، روس اور سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعاون بڑھا سکتا ہے اور امریکہ کے ساتھ کوئی قابل عمل پالیسی تیار کرنے سے گریز کر سکتا ہے۔ ایسی صورت میں اس بات کا بھی امکان ہے کہ پاکستان افغانستان میں موجود امریکی فوجوں کیلئے پاکستان کے راستے امریکی سازوسامان کی ترسیل کی سہولت روک دے۔

XS
SM
MD
LG