رسائی کے لنکس

زہریلی گیس حملے میں روس کے مبینہ کردار کا جائزہ لے رہے ہیں: امریکہ


شام میں کیمیائی حملے کے تناظر میں امریکہ اور روس کے مابین لفظوں کی جنگ دیکھنے میں آ رہی ہے جب کہ امریکی حکام یہ خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ ہو سکتا ہے روس نے اس حملے کے لیے اسد حکومت کی "مدد کی" ہو۔

منگل کو ادلب صوبے کے علاقے خان شیخون میں زہریلی گیس کے حامل ہتھیاروں کے مشتبہ حملے میں 80 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے جس کے بارے میں شام اور روس کا موقف ہے کہ باغیوں کے زیر تسلط علاقے میں ایک اسلحہ فیکٹری اور ذخیرے پر شامی طیاروں کے حملے سے یہاں رکھے کیمیائی مواد والے ہتھیار تباہ ہوئے اور اس سے خارج ہونے والی گیس سے یہ ہلاکتیں ہوئیں۔

مغرب اور امریکہ اس موقف کو تسلیم نہیں کرتا اور جمعہ کو ہی علی الصبح امریکی بحری بیڑے سے شام کے اس فضائی اڈے پر 59 ٹاماہاک میزائل داغے گئے جہاں سے شامی طیاروں نے خان شیخون میں کارروائی کی تھی۔

ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے پینٹاگان کے صحافیوں کو بتایا کہ "ہمارا خیال ہے کہ ہمارے پاس اس کی ایک اچھی تصویر موجود ہے کہ انھیں (اسد حکومت کو) کس نے مدد فراہم کی۔"

ان کے بقول حکام اس معلومات کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں کہ یا تو روس کو اس کیمیائی حملے کا پیشگی علم تھا یا پھر اس نے اسد حکومت کی فورسز کی معاونت کی۔

روس نے امریکی کروز میزائلوں کے حملے پر تنقید کرتے ہوئے اسے "کھلی جارحیت" قرار دیا ہے لیکن واشنگٹن میں یہ کہہ کر ماسکو پر تنقید کی جا رہی ہے کہ وہ شام کے معاملے پر مبینہ طور پر "ابہام پیدا" کر رہا۔

ایک اعلیٰ امریکی فوجی عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "دمشق اور ماسکو نے ہم سب کو یقین دلایا تھا کہ تمام کیمیائی ہتھیار تلف یا تباہ کر دیے گئے ہیں۔"

ان کا اشارہ 2013ء کے اس بین الاقوامی معاہدے کی طرف تھا جس میں شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے تمام ذخائر کو تلف کرنے کا کہا تھا گیا۔

عہدیدار نے مزید کہا کہ "روس کو فیصلہ کرنا ہے کہ آیا وہ ان ہتھیاروں کی تلفی کی کروائی گئی یقین دہانی کی ذمہ داری لے جیسا کہ اس نے عزم ظاہر کیا تھا، یا پھر وہ اس بات کا اعتراف کرے کہ وہ (شام کے صدر) بشار الاسد کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔"

ادھر روس کے وزیراعظم دمتری میدویدف امریکہ پر تنقید کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا اور اپنے ایک پیغام امریکی کروز میزائل کو غیرقانونی اقدام قرار دیتے ہوئے متنبہ کیا کہ واشنگٹن " روس کے ساتھ فوجی ٹکراؤ سے ایک قدم پرے ہو گیا ہے۔"

ماسکو نے دعویٰ کیا کہ اس نے شام میں امریکہ فورسز کے ساتھ براہ راست رابطوں کے لیے قائم کی گئی لائن معطل کر دی ہے۔ لیکن امریکی حکام اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کروز میزائل حملے سے قبل روس کو اس بارے میں اسی رابطے کے ذریعے مطلع کیا گیا اور یہ اب بھی بحال ہے۔

ایک سال سے زائد عرصہ قبل جب روس اپنے قریبی اتحادی شام کے صدر بشار الاسد کی مدد کے لیے شام میں آیا تھا تو اس وقت یہ رابطہ وضع کیا گیا تھا جس کا مقصد داعش کے خلاف سرگرمیوں میں امریکی اتحاد اور روس کے مابین کسی بھی عسکری ٹکراؤ کے خطرے سے بچا جا سکے۔

XS
SM
MD
LG