رسائی کے لنکس

امریکی قانون سازوں کا میانمار میں اقدام کا مطالبہ


ایوانِ نمائندگان کی امور خارجہ کمیٹی کے سربراہ، ایڈ روئس نے کہا ہے کہ ’’یہ انتہائی اہم معاملہ ہے کہ اخباری نمائندوں کو سرزمین پر پہنچنا چاہیئے۔ اور یہ کہ ’یو ایس ایڈ‘ سرزمین پر پہنچے۔ چونکہ اُن کی موجودگی کے نتیجے میں ہی تمام قسم کے مظالم پر نگاہ رکھی جا سکے گی‘‘

امریکی قانون سازوں نے میانمار کی کشیدہ رخائن ریاست میں صحافیوں اور امدادی کارکنوں کی ’’مکمل رسائی‘‘ کا مطالبہ کیا ہے۔

ایوانِ نمائندگان کی امور خارجہ کمیٹی کے سربراہ، ایڈ روئس نے کہا ہے کہ ’’یہ انتہائی اہم معاملہ ہے کہ اخباری نمائندوں کو سرزمین پر پہنچنا چاہیئے۔ اور یہ کہ ’یو ایس ایڈ‘ سرزمین پر پہنچے۔ چونکہ اُن کی موجودگی کے نتیجے میں ہی تمام قسم کے مظالم پر نگاہ رکھی جا سکے گی‘‘۔

روئس نے مزید کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے تین کروڑ اور 20 لاکھ ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا ہے، جس میں سے دو کروڑ 80 لاکھ ڈالر بنگلہ دیش کو دیے جائیں گے، جس کی سرحد پر اگست سے اب تک اندازاً پانچ لاکھ روہنگیا آ چکے ہیں۔

پیٹرک مرفی، ایک اعلیٰ امریکی اہل کار برائے جنوب مشرقی ایشیا ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ امریکہ نے میانمار کے سولین اور فوجی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ تشدد کی کارروائی کو روکنے کے لیے اقدام کریں۔ کمیٹی کے ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹاپ رینکنگ رکن، الیوٹ اینگل نے کہا ہے کہ امریکہ کو میانمار کی فوج کے خلاف تعزیرات عائد کرنے کے معاملے پر غور کرنا چاہیئے۔

قانون سازوں نے اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق کے بیان کی حمایت کی ہے، جس میں اُن کا کہنا تھا کہ رہنگیاؤں کے خلاف تشدد کی کارروائیاں، جس کے باعث وہ بڑے پیمانے پر ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں، نسل کشی کے مترادف ہیں۔

روئس کے بقول، ’’ریکارڈ کی غرض سے، اپنے لیے اور مسٹر اینگل کے لیے، یہ کمیٹی اور ہم یہی سمجھتے ہیں کہ یہ سریح نسل کشی ہے‘‘۔

جب اُن سے پوچھا گیا کہ وہ نسل کشی کا لفظ کیوں نہیں استعمال کر رہے ہیں، مرفی نے کہا کہ میانمار کی صورت حال ایک ’’انسانی المیہ‘‘ ہے۔

XS
SM
MD
LG