امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا ہے کہ متنازع جوہری پروگرام کے تناظر میں واشنگٹن شمالی کوریا پرمزید پابندیاں عائد کرے گا ۔ اُنھوں نے کہا کہ پابندیاں حکومت کی غیر مستحکم،خلاف قانون اور اشتعال انگیز پالیسیوں کے خلاف ہوں گی اور اس سے عام لوگ متاثر نہیں ہوں گے، جو پہلے ہی طویل عرصہ سے اپنی حکومت کی غلط ترجیحات کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
امریکہ وزیر خارجہ نے یہ اعلان بدھ کے روز سیول میں امریکہ اور جنوبی کوریا کے اعلیٰ حکام کے درمیان دفاعی شعبے میں تعاون کے بارے میں ہونے والے مذاکرات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کیاہے۔ ہلری کلنٹن کا کہنا تھا کہ یہ اضافی پابندیاں ان اقدامات کا حصہ ہیں جن کا مقصد ایسے منافع بخش منصوبوں پر قدغن لگانا ہے جن سے حاصل ہونے والی آمدنی جوہری پروگرام کے منصوبوں پر خرچ کی جاتی ہے۔
امریکی وزیرخارجہ ہلری کلنٹن اور وزیردفاع رابرٹ گیٹس نے بدھ کو شمالی اور جنوبی کوریا کو تقسیم کرنے والے غیرفوجی سرحدی علاقے کا بھی دورہ کیا ہے ۔ امریکی حکام کی طرف سے اس علاقے کا یہ غیر معمولی دورہ جنوبی کوریاسے حقیقی یکجہتی کے اظہار کے لیے کیا گیا۔
1950 ء سے 1953ء کے دوران ہونے والی کوریائی جنگ کے بعد سے شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان چار کلومیڑ چوڑے اور 240 کلومیٹر لمبے اس سرحدی علاقے کوغیر فوجی علاقہ قراردیا گیا تھا اور اس کے دونوں اطراف فریقین کے لاکھوں فوجی تعینات ہیں۔
امریکہ کے اعلیٰ حکام نے اس علاقے کا یہ دورہ ایسے وقت کیا ہے جب امریکہ اور جنوبی کوریا 25 جولائی سے بڑے پیمانے پر مشترکہ مشقیں شروع کرنے والے ہیں ۔ امریکی اور جنوبی کوریا کے حکام کے مطابق ان مشترکہ فوجی مشقوں کا مقصد شمالی کوریا کو یہ واضح پیغام دینا ہے کہ وہ اپناجارحانہ رویہ ترک کرے اور اس حقیقت کو سمجھے کہ امریکہ اور جنوبی کوریااپنی مشترکہ دفاعی صلاحیت کو بڑھانے کے عزم پر قائم ہیں۔
رواں سال مارچ میں جنوبی کوریا کے ایک بحری جنگی جہاز کے ڈوبنے کے بعد شمالی کوریااور جنوبی کوریا کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے ۔ جنوبی کوریا کا الزام ہے کہ اُس کا جہازڈوبنے کا واقعہ اور اُس پر سوار 46 افراد کی ہلاکت شمالی کوریا کے میزائل حملے سے ہوئی تھی۔ شمالی کوریا اس الزام کی تردید کرتا آیا ہے اور یہ کہہ چکا ہے کہ اگر اُس کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی کی گئی تو وہ اس کاجواب جنگ کی صورت میں دے گا۔