امریکہ کے محکمہ انصاف نے اعلان کیا ہے کہ نائن الیون حملوں میں ملوث مبینہ سعودی شخص کے نام کا جلد اعلان کیا جائے گا۔
امریکی عدالت میں 11 ستمبر 2001 کے حملوں میں سعودی حکومت کے ملوث ہونے سے متعلق مختلف درخواستوں پر سماعت ہور ہی ہے۔
نیو یارک میں جمعرات کو ان درخواستوں کی سماعت کے دوران امریکی پراسیکیوٹرز کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل ولیم بار نے طے کیا تھا کہ وہ ریاستی راز افشاں نہیں کریں گے اور حملوں میں ملوث شخص کا نام صرف متعلقہ وکلا کو بتائیں گے۔
امریکی محکمہ انصاف کی جانب سے نائن الیون حملوں میں ملوث شخص کا نام سامنے لانے کے اعلان کے بعد واشنگٹن میں سعودی سفارت خانے نے اس پر مؤقف دینے سے گریز کیا ہے۔
سعودی حکومت کی طرف سے ان حملوں میں ملوث ہونے کی تردید کی جاتی رہی ہے۔
یاد رہے کہ نائن الیون حملوں میں سعودی عرب کے ملوث ہونے سے متعلق کیس 2003 میں دائر کیا گیا تھا اور یہ کیس اُس وقت شہ سرخیوں میں آیا جب کانگریس نے دہشت گردی میں ملوث غیر ملکی حکومتوں کے خلاف قانونی کارروائی آسان کرنے سے متعلق نیا قانون بنایا تھا۔
اس کیس کے مدعی امریکی تفتیشی ادارے (ایف بی آئی) کی 2012 کی رپورٹ میں سے وہ معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں جس میں دو سعودی شخصیات کے نائن الیون حملوں میں ملوث ہونے کا ذکر ہے۔
ایف بی آئی رپورٹ کے مطابق ایف بی آئی دو سعودی عہدیداروں عمر البیومی اور فہد التمیری سے تحقیقات کررہی ہے اور رپورٹ میں ایک تیسرے بے نامی شخص کے بھی ملوث ہونے کے ثبوت دستیاب ہیں۔ جس نے مذکورہ سعودی عہدیداروں کو ہائی جیکرز کی مدد کرنے کا حکم دیا تھا۔
یاد رہے کہ 11 ستمبر 2001 کی صبح القاعدہ کے 19 دہشت گرد نے امریکہ کے مختلف ایئر پورٹس پر مسافروں کے روپ میں چار طیاروں پر سوار اور عملے کو یرغمال بنالیا تھا۔
بعدازاں انہوں نے یکے بعد دیگرے ہائی جیک کیے گئے طیارے نیویارک کی دو بلند عمارتوں ورلڈ ٹریڈ سینٹر سمیت پینٹاگون اور پنسلوانیا میں اپنے اہداف سے ٹکرا دیے۔ ان حملوں میں مجموعی طور پر لگ بھگ 3000 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔