امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری اتوار کو میانمار کے دورے پر دارالحکومت نیپیداو پہنچے ہیں جہاں وہ اپنی ہم منصب آنگ سان سوچی سے ملاقات کریں گے۔
حال ہی میں امریکہ نے میانمار پر فوجی دور حکومت میں لگائی گئی متعدد اقتصادی و تجارتی پابندیاں ہٹائی تھیں لیکن درجنوں شخصیات اور گروپوں پر یہ پابندیاں تاحال برقرار ہیں۔
مارچ میں ہونے والے انتخابات میں نوبل انعام یافتہ سوچی کی جماعت اکثریت حاصل کر کے اقتدار میں آئی تھی جس کے بعد کیری کی یہ ان سے پہلی ملاقات ہے۔
امریکی وزیر خارجہ میانمار کے دیگر عہدیداروں سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ کیری کے دورے کا مقصد میانمار کی "نئی سویلین جمہوری منتخب حکومت کے لیے حمایت" اور "جمہوری و اقتصادی اصلاحات میں پیش رفت" کا اظہار کرنا ہے۔
توقع ہے کہ کیری اور سوچی کے مابین ہونے والی بات چیت میں میانمار کی طرف سے حالیہ دنوں میں امریکی سفارتخانے سے کی جانے والی وہ درخواست بھی زیر بحث آئے گی جس میں امریکہ کو ملک کی غیر تسلیم شدہ نسلی اقلیت کے لیے "روہنگیا" کی اصطلاح استعمال نہ کرنے کا کہا گیا تھا۔
میانمار میں امریکی سفیر اسکاٹ مارسیئل کا کہنا ہے کہ امریکہ یہ اصطلاح استعمال کرتا رہے گا کیونکہ یہ واشنگٹن کی پالیسی ہے کہ وہ برادریوں کو اسی نام سے پکارتا ہے جس سے وہ پکارا جانا چاہتی ہیں۔
میانمار کا دعویٰ ہے کہ خود کو روہنگیا کہلوانے والے دراصل غیر قانونی بنگالی تارکین وطن ہیں۔
بدھ مت کی پیروکاروں کی غالب اکثریت والے ملک میانمار کو ملک میں مسلم اقلیت سے روا رکھے جانے والے ناروا سلوک پر بین الاقوامی سطح پر تنقید کا سامنا رہا ہے۔