مختلف کاروباری اداروں کی جانب سے منعقد کیے جانے والے جاب فئیرز میں لگی لمبی قطاریں امریکہ میں بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کی عکاسی کرتی ہیں۔ خاص طور پر سیاہ فام امریکیوں کے لئے صورتحال اور بھی تشویشناک ہے۔ ڈیوڈ بیکر کو پچھلے ایک سال سے ملازمت حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ میں نے پچھلے ایک سال میں تقریبا ًتین سو جگہ ملازمت کے لیے درخواست جمع کرائی ۔
امریکی لیبر ڈیپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ امریکہ میں بے روزگاری کی شرح 9 اعشاریہ ایک فیصد ہے۔ لیکن سیاہ فام امریکیوں میں یہ شرح تقریبا 16 اعشاریہ 7 فیصد تک پہنچ چکی ہے جو 1984 ءسے اب تک بلند ترین ہے۔
ماہر معاشیات ہائڈی شائرہولز کہتے ہیں کہ ہم اس وقت پورے نظام میں ملازمتوں میں کمی دیکھ رہے ہیں اور اقلیتوں میں اس کا اثر زیادہ ہو رہا ہے۔
کچھ سیاہ فام امریکیوں کا کہنا ہے کہ ایسے شعبے جہاں ملازمتیں موجود ہیں، جیسے کہ صحت کا شعبہ ، وہاں بھی مقابلہ بہت سخت ہے۔
صدر اوباما کا کہنا ہے کہ بے روزگاری کی بلند شرح معیشت کی راہ میںٕ رکاوٹ ہے۔ اس لیے صدر اوباما نے قانون سازوں سے کہا ہے کہ ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے ملازمتیں پیدا کی جاسکیں۔ ماہرین کا کہنا ہےکہ صدر اوباما پر سیاسی دباؤبھی ہے ، خاص طور پر ان کے افریقی نژاد امریکیوں کی طر ف سے جنھیں اس صورتحال میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔
ایک پروگرام جس میں اوباما انتظامیہ سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہے ، وہ ہے ایسے لوگوں کی مدد جو ایک لمبے عرصے سے بے روزگار ہیں۔ جیکلین ولس چھ ماہ سے بے روزگار ہیں۔ اب وہ ایک ایسے پروگرام میں شامل ہیں جو بے روزگاروں کو مخصوص کمپنیوں میں آٹھ ہفتوں کے تربیتی پروگرام مہیا کرتا ہے ۔
اس منصوبے کے نتائج جارجیا جیسی ریاستوں میں نظر آنے لگے ہین جہاں تقریبا 25 فیصد رضاکاروں کو اسی کمپنی میں ملازمت مل چکی ہے جہاں وہ ٹریننگ کر رہے تھے۔جبکہ 60 فیصد کو کہیں اور ملازمت مل گئی ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بے روزگاری کی یہ بلند سطح ، خاص طور پر سیاہ فام امیریکیوں میں، آنے والے پانچ برسوں تک ایسے ہی رہنے کا خدشہ ہے۔ جبکہ مقامی رہنماوں کا خیال ہے کہ حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی منصوبہ بندی حالات کو قابو کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔