رسائی کے لنکس

امریکی فوجی اڈے پر حملہ، داعش کے جاسوسوں کی کارستانی


غویر مخمور محاذ پر تعینات کُرد کمانڈر، میجر جنرل سروان بارزانی نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’ہمیں 100 فی صد یقین ہے کہ داعش کے مخبر موجود ہیں۔‘‘ بقول اُن کے، ’’ہم اِس معاملے کی تفتیش کررہے ہیں، اور مزید ثبوت اکٹھے کر رہے ہیں‘‘

کُرد ذرائع نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا ہے کہ عراقی فوج میں موجود داعش کے پوشیدہ لڑاکوں نے شمالی عراق کے امریکی فوجی اڈے کے بارے میں خفیہ معلومات اکٹھی کی، جس کے بعد وہ مقام دولت اسلامیہ کے ایک بڑے حملے کا ہدف بنا، جس کے نتیجے میں گذشتہ ماہ ایک امریکی فوجی ہلاک ہوا۔

غویر مخمور محاذ پر تعینات کُرد کمانڈر، میجر جنرل سروان بارزانی نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’ہمیں 100 فی صد یقین ہے کہ وہاں داعش کےمخبر موجود ہیں۔‘‘

بقول اُن کے، ’’ہم اِس معاملے کی تفتیش کررہے ہیں، اور مزید ثبوت اکٹھے کر رہے ہیں‘‘۔

موصل کے قریب، ’فائر بیس بیل‘ نامی امریکی فوج کے توپ خانے کے چوکی قائم ہے۔ یہ چوکی اُس وقت قائم کی گئی جب سنہ 2014میں امریکی افواج کا عراق سے انخلا ہوا۔

حالیہ ہفتوں کے دوران یہ اڈا داعش کے شدید حملے کا نشانہ بنا، جس کے بعد پینٹاگان نے اس کی موجودگی کے بارے میں عام اطلاع دی۔

مارچ کے وسط میں داعش نے اِس اڈے پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں کیلی فورنیا کے شہر، تمیکولا سے تعلق رکھنے والے امریکی میرین اسٹاف سارجنٹ، لوئی ایف کارڈن ہلاک، جب کہ متعدد امریکی فوجی زخمی ہوئے۔

داعش کے اس حملے سے قبل، پینٹاگان نے فوجی اڈے سے متعلق معلومات جاری نہیں کی تھی، چونکہ یہ مکمل طور پر زیر استعمال نہیں تھا۔ یہ بات امریکی فوجی کرنل، اسٹیو وارن نے بتائی ہے جو دولت اسلامیہ کے خلاف امریکی فوجی کارروائی سے متعلق ترجمان ہیں۔ وارن نے داعش کے جاسوسوں سے متعلق کرد الزامات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

وارن نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’اہم معلومات کو محفوظ بنانے پر ہم کافی توجہ دیتے ہیں، اور اس ضمن میں ہم اپنے عراقی ساجھے داروں کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں۔ ہم انٹیلی جنس کے معاملوں پر کھلے عام مزید گفتگو نہیں کریں گے‘‘۔

داعش کے جاسوس، نیا معاملہ نہیں

’وائس آف امریکہ‘ سے رابطہ کرنے پر بغداد میں موجود عراقی اہل کاروں نے کُرد دعووں پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔

تاہم، شمالی عراق میں امریکی اڈے کے قریب نینوا کی عراقی کارروائیوں کی کمان کے سربراہ نے اِن الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے دستے میں داعش کے جاسوس موجود نہیں۔

میجر جنرل نجم عبد اللہ الجبوری کے بقول، ’’اس بات میں کوئی صداقت نہیں، اور یہ بے بنیاد ہے۔ میں اس پر قطعی طور پر کچھ نہیں کہنا چاہوں گا‘‘۔

کُرد رہنماؤں اور عراقی حکام کےسیاسی اور سماجی تعلقات متنازع نوعیت کے ہیں۔ شمالی عراق میں کُردوں کا کُلی اختیار ہے، جو بغداد سے آزادی کے خواہاں ہیں۔ شمالی عراق میں داعش کے خلاف لڑائی مشکل کا شکار ہے، ایسے میں جب کرد اور عراقی افواج کے مختلف فوجی دستے ہیں جو اپنی حدود میں رہتے ہوئے رابطہ رکھتے ہیں۔

عراقی قانون ساز، شخوان عبداللہ ایک کُرد ہیں، جو عراقی پارلیمانی سکیورٹی اور دفاعی کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ عراق کو ایک مدت سے خطرہ لاحق رہا ہے کہ اُس کے فوجی حلقوں میں دولت اسلامیہ سرایت کرجائے گی۔

اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’یہ کوئی نیا معاملہ نہیں۔ ماضی میں، عراقی فوج کے اندر داعش کے جاسوسوں نے نہ صرف دولت اسلامیہ کو اطلاعات فراہم کیں، بلکہ وہ خودکش بم حملوں میں براہِ راست ملوث رہے ہیں‘‘۔

XS
SM
MD
LG