امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے تعلیم ہمیشہ بہت اہم رہی ہے ۔ عام امریکی گھرانوں کی طرح مسلمان والدین بھی اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے مختلف طریقے استعمال کر سکتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو کاؤنٹی کے زیرِ انتظام چلنے والے سیکولر اسکولوں میں یا پرائیویٹ اسکولوں میں بھیج سکتے ہیں اور انہیں مذہبی تعلیم گھر پر یا اختتام ہفتہ کی چھٹیوں میں فراہم کر سکتے ہیں۔ یا وہ اپنے بچوں کو پرائیویٹ مذہبی اسکولوں میں بھیج سکتے ہیں۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں اسلامی تاریخ کی پروفیسر یووین حداد کہتی ہیں کہ اسلامی اسکول وہی رول ادا کرتے ہیں جو امریکہ میں چرچوں کے زیرِ انتظام چلنے والے دوسرے بہت سے اسکول انجام دیتے ہیں۔’’شمالی امریکہ میں 100سے زیادہ اسلامی اسکول اسٹیٹ کا سرکاری نصاب پڑھاتے ہیں ۔ ان اسکولوں میں معاشرتی علوم، تاریخ، جغرافیہ، ریاضی اور سائنس کا کورس بالکل وہی ہے جو عام سرکاری اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان اسکولوں میں ایک پیرئیڈ میں وہ اسلام کی تعلیم حاصل کر تے ہیں۔‘‘
حداد کہتی ہیں کہ جیسے ہی بعض مسلمان دہشت گردوں نے 11 ستمبر، 2001 کو امریکہ پر حملے کیے، امریکی پوچھنے لگےکہ کیا امریکہ میں اسلامی اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں میں دہشت گردی کے رجحانات پیدا ہو سکتے ہیں اور ان سے قومی سلامتی کے لیے خطرہ پیدا ہو سکتا ہے ۔ اس زمانے میں عام امریکیوں میں اسلام کے بارے میں جو تاثر پیدا ہو ا اس سے مسلمان والدین کے لیے ایک نیا مسئلہ پیدا ہوگیا۔ ان کے بچوں کے ساتھ پبلک اسکولوں میں امتیازی سلوک ہونے لگا جب کہ نیوز میڈیا میں اسلامی اسکولوں کا تعلق انتہا پسند نظریات سے جوڑا جانے لگا۔
حداد کہتی ہیں’’بعض والدین نے اپنے بچوں کو اسلامی اسکولوں نے نکال لیا اور انہیں سرکاری اسکولوں میں داخل کر دیا کیوں کہ انہیں اپنے بچوں کے خلاف منفی رد عمل کا ڈر تھا۔ لیکن بعض مقامات پر ایسا بھی ہوا کہ والدین نے اپنے بچوں کو ان کی حفاظت کی خاطر سرکاری اسکولوں سے نکال کر اسلامی اسکولوں میں داخل کر دیا۔‘‘
پروفیسر حداد جو ایک کتاب ایجوکیٹنگ دی مسلمز اِن امریکہ کے مصنفین میں شامل ہیں یہ بات تسلیم کرتی ہیں کہ عام امریکیوں میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ اسلامی اسکولوں میں بچوں کو کیا پڑھایا جاتا ہے ۔
ڈینیل پپس ایک قدامت پسند تاریخ دان ہیں جو مڈل ایسٹ فورم اور کیمپس واچ کے نام سے دو ویب سائٹس چلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ میں کئی پرائیویٹ اسلامی اسکولوں میں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے وہ انتہا پسندانہ مواد سے بھرا ہوتا ہے ۔ ’’یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ان اسکولوں میں ایسے ٹیچرز اور درسی کتابیں ہیں جو کھلم کھلا مغرب مخالف، عیسائیوں کی مخالف اور یہودیوں کی مخالف ہیں اور اسلام کی برتری کی بات کرتی ہیں جیسے صرف اسلام ہی صحیح مذہب ہے۔ اس قسم کے خیالات سے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور بعض حالات میں دہشت گردی کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ خاص طور سے اسلامی سعودی اکیڈمی میں ان کے اسکول کا ایک بہت اچھا طالب علم، صدر بُش کو ہلاک کرنے کی کوشش کے الزام میں جیل میں ہے۔‘‘
پپس کہتے ہیں کہ اسلامی اسکول انتہا پسندی پر مبنی خیالات پھیلا رہے ہیں اور وہ اپنے طالب علموں کے دلوں میں یہ غلط بات بٹھا دیتے ہیں کہ ان کی زندگی میں اہم ترین چیز ان کی اسلامی شناخت ہے ۔
لیکن البرٹ ہرب اس خیال سے متفق نہیں۔ وہ ڈیاربورن، ریاست مشی گن میں مسلم امریکن یوتھ اکیڈمی کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتےہیں’’ہم ریاست مشی گن کے معیاری نصاب پر عمل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ، ہماری تعلیم میں اسلامی عنصر بھی شامل ہے۔ ہم اسلام کی تعلیم دیتے ہیں اور ایک غیر ملکی زبان کی حیثیت سے عربی زبان بھی پڑھاتے ہیں۔ہم یہ بات یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ہم اپنے نوجوانوں میں اسلامی کردار کی تعمیر کریں اور امریکہ کے معاشرے میں اسلام کی مثبت اقدار کو اجا گر کریں۔‘‘
امریکہ میں مسلمان، اسلامی اسکول قائم کرنے کے لیے جو کوششیں کر رہے ہیں وہ بالکل ویسی ہی ہیں جو امریکہ میں رومن کیتھو لک او ر یہودی کمیونٹیوں نے کی ہیں۔ ان دونوں کمیونٹیوں نے جب پہلے پہل اپنے مذہبی اسکول قائم کرنے کی کوشش کی تو انہیں بھی عام لوگوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ ماہرین کہتے ہیں کہ مسلمان امریکیوں کو اپنے بچوں کو اعلی ٰ ترین معیار کی تعلیم دینے کی کوشش کرنی چاہیئے اور اس کے ساتھ ہی انہیں امریکہ کے لوگوں کو اسلام سے واقف کرنے اور یہ بتانے کی کوششیں بھی تیز کر دینی چاہئیں کہ وہ کس طرح اپنی مذہبی اقدار اپنی آنے والی نسل کو منتقل کر رہے ہیں۔