واشنگٹن —
کئی ہفتوں تک ایران کےنیوکلیئر پروگرام کےبارے میں ’گمراہ کُن‘ رویہ اختیار کرنے کا الزام دینے کے بعد، جوہری ہتھیاروں کے بارے میں امریکہ کی چوٹی کی مذاکرات کار نے امریکی ایوانِ نمائندگان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایران کے خلاف تعزیرات عائد کرنے میں دھیرج سے کام لیں۔
جمعے کے دِن ’وائس آف امریکہ‘ کی فارسی سروس کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں، معاون امریکی وزیر خارجہ، وینڈی شرمن نے کہا کہ اضافی امریکی تعزیرات کی کسی کوشش کے حوالے سے تاخیر سے کام لیا جائے، تاکہ یہ دیکھا جاسکے آیا متنازع جوہری پروگرام پر کوئی پیش رفت ممکن ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ اوباما انتظامیہ کے عہدے دار پابندیاں لگانے کے معاملے پر سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان کے قانون سازوں کے ساتھ کی جانے والی کوششوں میں تاخیر کو ملحوظ خاطر رکھیں۔
اُن کے بقول، ’کانگریس کی اپنی سوچ ہوا کرتی ہے۔ ہم کانگریس پر کنٹرول نہیں کرسکتے، لیکن ہم اُس کے ساتھ سنجیدہ بات چیت کر رہے ہیں۔ ہم کانگریس کے ساتھ ایک پارٹنر کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ مذاکرات کے اس مرحلے پرکی جانے والی کوششوں کے سلسلے میں ہم نے مؤثر ساجھے دار کا فرض نبھایا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ کامیابی سے کسی نتیجے تک پہنچنے کے لیے ہم مؤثر کردار ادا کریں، اور مجھے امید ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔‘
ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر اُٹھنے والے سوالات کے نتیجے میں کانگریس کی یہ کوشش رہی ہے کہ ایران کے خلاف سخت تعزیرات لگائی جائیں۔
ایران کا کہنا ہے کہ اُس کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم، مغرب اور اسرائیل یہ باور کرتے ہیں کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت کی طرف آگے بڑھ رہا ہے۔
یورینیئم کی افزودگی کے پروگرام کو بند کرنے سے انکار کرنے پر ایران کے اوپر اقوام متحدہ کی طرف سے تعزیرات کے کئی دور لاگو ہوچکے ہیں۔ کم درجہ افزودہ یورینیئم توانائی کی شہری نیوکلیئر تنصیبات میں استعمال ہوتا ہے، جب کہ اونچے درجے کا افزودہ یورینیئم جوہری بم بنانے کا لازمی جُزو ہے۔
امریکی اور یورپی یونین کی تعزیرات، جو 2011ء میں لاگو ہوئی تھیں، اُن کے باعث، ایران کی تیل کی برآمدات میں یومیہ 10 لاکھ بیرل سے زیادہ کی کمی واقع ہوئی ہے۔
برسوں بعد، رواں ماہ، ایران اور مغرب کے درمیان انتہائی بامقصد بات چیت کا آغاز ہوا۔
تاہم، حالیہ دِنوں کے دوران ایران میں اُس وقت ایک تہلکہ مچ گیا جب شرمن نے یہ بیان دیا کہ امریکہ کو ایران کے ساتھ کسی جوہری سمجھوتے تک پہنچنے میں محتاط رہنا ہوگا، کیونکہ، اُن کے بقول، ’جوہری پروگرام کے بارے میں ایرانیوں کے ساتھ حالیہ تجربہ بتاتا ہے کہ دھوکہ دہی اُن کی گھٹی میں شامل ہے‘۔
جمعے کو ’وائس آف امریکہ‘ کے ساتھ انٹرویو میں شرمن نے کہا کہ اُن کا یہ بیان سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے سامنے سماعت کے دوران تین اکتوبر کو دیا گیا تھا، جو ایرانی عوام اور ایرانی نژاد امریکیوں کے لیے تشویش کا باعث بنا۔
جمعے کے دِن ’وائس آف امریکہ‘ کی فارسی سروس کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں، معاون امریکی وزیر خارجہ، وینڈی شرمن نے کہا کہ اضافی امریکی تعزیرات کی کسی کوشش کے حوالے سے تاخیر سے کام لیا جائے، تاکہ یہ دیکھا جاسکے آیا متنازع جوہری پروگرام پر کوئی پیش رفت ممکن ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ اوباما انتظامیہ کے عہدے دار پابندیاں لگانے کے معاملے پر سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان کے قانون سازوں کے ساتھ کی جانے والی کوششوں میں تاخیر کو ملحوظ خاطر رکھیں۔
اُن کے بقول، ’کانگریس کی اپنی سوچ ہوا کرتی ہے۔ ہم کانگریس پر کنٹرول نہیں کرسکتے، لیکن ہم اُس کے ساتھ سنجیدہ بات چیت کر رہے ہیں۔ ہم کانگریس کے ساتھ ایک پارٹنر کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ مذاکرات کے اس مرحلے پرکی جانے والی کوششوں کے سلسلے میں ہم نے مؤثر ساجھے دار کا فرض نبھایا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ کامیابی سے کسی نتیجے تک پہنچنے کے لیے ہم مؤثر کردار ادا کریں، اور مجھے امید ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔‘
ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر اُٹھنے والے سوالات کے نتیجے میں کانگریس کی یہ کوشش رہی ہے کہ ایران کے خلاف سخت تعزیرات لگائی جائیں۔
ایران کا کہنا ہے کہ اُس کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم، مغرب اور اسرائیل یہ باور کرتے ہیں کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت کی طرف آگے بڑھ رہا ہے۔
یورینیئم کی افزودگی کے پروگرام کو بند کرنے سے انکار کرنے پر ایران کے اوپر اقوام متحدہ کی طرف سے تعزیرات کے کئی دور لاگو ہوچکے ہیں۔ کم درجہ افزودہ یورینیئم توانائی کی شہری نیوکلیئر تنصیبات میں استعمال ہوتا ہے، جب کہ اونچے درجے کا افزودہ یورینیئم جوہری بم بنانے کا لازمی جُزو ہے۔
امریکی اور یورپی یونین کی تعزیرات، جو 2011ء میں لاگو ہوئی تھیں، اُن کے باعث، ایران کی تیل کی برآمدات میں یومیہ 10 لاکھ بیرل سے زیادہ کی کمی واقع ہوئی ہے۔
برسوں بعد، رواں ماہ، ایران اور مغرب کے درمیان انتہائی بامقصد بات چیت کا آغاز ہوا۔
تاہم، حالیہ دِنوں کے دوران ایران میں اُس وقت ایک تہلکہ مچ گیا جب شرمن نے یہ بیان دیا کہ امریکہ کو ایران کے ساتھ کسی جوہری سمجھوتے تک پہنچنے میں محتاط رہنا ہوگا، کیونکہ، اُن کے بقول، ’جوہری پروگرام کے بارے میں ایرانیوں کے ساتھ حالیہ تجربہ بتاتا ہے کہ دھوکہ دہی اُن کی گھٹی میں شامل ہے‘۔
جمعے کو ’وائس آف امریکہ‘ کے ساتھ انٹرویو میں شرمن نے کہا کہ اُن کا یہ بیان سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے سامنے سماعت کے دوران تین اکتوبر کو دیا گیا تھا، جو ایرانی عوام اور ایرانی نژاد امریکیوں کے لیے تشویش کا باعث بنا۔