1979 کے اسلامی انقلاب سے اب تک، ایرانی لیڈروں نے مغرب اور خاص طور پر امریکہ کی جانب دفاعی انداز اختیار کر رکھا ہے ۔ایسو سی ایٹڈ پریس کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں ایران کے صدر، محمود احمدی نژاد نے کہا کہ ان کے ملک پر تنقید اور اس کے خلاف پابندیوں کی وجہ سے معمول کے تعلقات قائم کرنا نا ممکن ہو گیا ہے ۔’’جو لوگ ہمارے ساتھ مخاصمت اور دشمنی قائم رکھنے پرمُصر ہیں، وہ مستقبل میں دوستی کے امکانات کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔‘‘
اگرچہ بہت سے ایرانیوں کی نظر میں امریکہ اور ایران کے درمیان تعلقات خراب ہونے کی ابتدا 1953 میں ہوئی جب وزیرِ اعظم محمد مصدق کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تھا، لیکن دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات صحیح معنوں میں 4 نومبر، 1979 کو ٹوٹ گئے ۔ یہ وہ دن تھا جب نئے مذہبی رہنما، آیت اللہ خمینی کے حامیوں نے تہران میں امریکی سفارت خانے پر قبضہ کر لیا۔ پچاس سے زیادہ امریکی سفارت کار اور عملے کے لوگ یرغمال بنا لیے گئے اور 444 دنوں تک اسی حالت میں رہے ۔تیس برس بعد، قائم مقام سفیر، Bruce Laingen جو یرغمال بنائے جانے والوں میں اعلیٰ ترین افسر تھے ، کہتے ہیں کہ آیت اللہ خمینی کی ناراضگی اتنی شدید تھی کہ ان کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کرنا ناممکن تھا۔
انھوں نے کہا’’مجھے پکا یقین ہے کہ آیت اللہ خمینی امریکہ کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات نہیں چاہتے تھے۔ وہ تعلقات کو حقیقت بننے سے روکنے کےلیے سب کچھ کرنے کو تیار تھے۔‘‘
دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات 1980 میں ٹوٹے تھے اور آج تک بحال نہیں ہوئے ہیں۔ 1980 میں جب ایران اور عراق کے درمیان جنگ چھڑی، تو امریکہ نے عراق کا ساتھ دیا۔ 1997 میں محمد خاتمی ایران کے پانچویں صدر منتخب ہوئے ۔ وہ اصلاحات پسند تھے اور ان کے انتخاب سے یہ امید بندھی کہ تہران اور واشنگٹن کے درمیان مذاکرات ممکن ہو جائیں گے ۔ اور اگلے سال، وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ نے ایک تقریر میں ایران کی طرف مصالحت کا ہاتھ بڑھایا۔ انھوں نے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد بحال کرنے اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کے طریقے معلوم کرنے پر زور دیا تا کہ معمول کے تعلقات بحال کیے جا سکیں۔
لیکن صدر خاتمی نے جواب دیا کہ معمول کے تعلقات بحال ہونے کی صورت صرف یہ ہے کہ امریکہ نے 1953 میں وزیر اعظم مصدق کی حکومت کا تختہ الٹنے میں جو کردار ادا کیا تھا، وہ اس کے لیے معذرت پیش کرے ۔ انھوں نے کہا’’اگر امریکہ یہ بات قبول کرلے کہ اس سے یہ غلطی ہوئی تھی ، تو میرے خیال میں ہمارے درمیان جو غلط فہمیاں ہیں، انھیں دور کرنے میں بڑی مدد ملے گی۔ لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ امریکہ نے ایسا نہیں کیا ہے۔‘‘
صدر خاتمی کے جانشین، محمود احمدی نژاد کا رویہ زیادہ سخت ہے اور انھوں نے امریکہ کے خلاف تند و تیز بیانات کا سلسلہ جاری رکھا ہے ۔ انھوں نے ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں جارحانہ رویہ اختیار کیا ہے اور نیوکلیئر ہتھیاروں کی تیاری کے سلسلے میں دنیا کی طرف سے معاملات کو شفاف اور ابہام سے پاک رکھنے کے جو مطالبات کیے جا رہے ہیں، انہیں نظر انداز کیا ہے ۔ اس طرز عمل کے نتیجے میں، اقوامِ متحدہ ، امریکہ اور یورپی یونین کے ملکوں نے ایران کے خلاف پابندیاں عائد کر دی ہیں ۔
2009 میں جب صدر براک اوباما نے اپنا عہدہ سنبھالا، تو انھوں نے امریکہ مخالف ملکوں کو ، خاص طور سے ایران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا’’جو لوگ اقتدار پر بد عنوانی اور فریب کاری کے ذریعے اور اختلاف رائے کو کچل کر، چمٹے ہوئے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ تاریخ کا فیصلہ ان کے خلاف ہوگا۔ لیکن اگر آپ اپنی بند مٹھی کھولنے کو تیار ہوں، تو ہم آپ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں گے۔‘‘
تا ہم، اب تک محمود احمدی نژاد نے سرکشی کا رویہ اپنایا ہوا ہے۔’’امریکی انتظامیہ کو ماننا ہوگا کہ ایران ایک بڑی طاقت ہے اور اسے یہ حقیقت قبول کرنا ہو گی۔‘‘
اپنے بظاہر سخت موقف کے باوجود، ایران کے صدر نے اس ہفتے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ امریکہ اور اس کے شراکت داروں، یعنی 5+1 کے ملکوں کے ساتھ نیوکلیئر معاملے پر مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر رضا مند ہیں ۔