رسائی کے لنکس

ایران پر حملے کی حمایت امریکہ کیلیے مشکل فیصلہ ہے، تجزیہ کار


اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے واشنگٹن کے دورے اور صدر اوباما سے ان کی ملاقت پر ایک سنیئرامریکی کالم نگار کا وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں تجزیہ

واشنگٹن میں مقیم سینئر تجزیہ کار اور لاس انجلس ٹائمز کے کالمسٹ ڈوئل میکمینس نے کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم جن توقعات کے ساتھ واشنگٹن آئے تھے وہ مکمل طور پر پوری نہیں ہوئی ہیں۔ ان کے بقول امریکہ ایران کے جوہری پروگرام کے خاتمے کے لیے ابھی بھی سفارتی کوششوں کو موقع دینا چاہتا ہے کیونکہ اس کے نزدیک حملے کا مطلب ہو گا کہ تمام سفارتی راستے بند ہو چکے ہیں۔ جب کہ اسرائیل جس کے وزیراعظم اور وزیر دفاع پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ ایران پر حملے کا حکم دے سکتے ہیں، امریکہ کے موقف پر متذبذب نظرآتا ہے۔

’’ مسٹرنیتن یاہوجو کچھ چاہتے تھے ان میں ایک بات یہ تھی کہ صدرباراک اوباما ایسے ریڈلائنزیا حدود کا نئے سرے سے تعین کریں جس سے واضح ہوتا ہو کہ وہ کیا موڑ ہوگا جہاں امریکہ ایران کے خلاف طاقت کا استعمال کرے گا؟ جبکہ صدر اوباما نے کہا ہے کہ وہ ایران کو جوہری طاقت ہتھیار حاصل کرنے سے روکیں گے اوروہ ایسے موقع پر ہی فوجی حل کی جانب جائیں گے۔ جبکہ اسرائیل چاہتاہے کہ ایران کوابتدائی مراحل میں ہی جوہری صلاحیت کے حصول سے ہی روکا جائے لیکن امریکی انتظامیہ اس نہج تک نہیں گئی ‘‘

کیا امریکہ کی حوصلہ افزائی، یا حمایت کی یقین دہانی کے بغیر اسرائیل اپنے طور ایران پر حملہ کر سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ڈوئل میکمینس نے کہا کہ بظاہرامریکہ نے اسرائیل کے ایران پر ممکنہ حملے کی توثیق کی ہے اور نہ اس کی اجازت دی ہے۔ صدر اوباما اور امریکہ کے دیگر اعلی عہدیدار کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ اایران پر حملہ درست اقدام نہ ہو گاا۔ میرا نہیں خیال کہ اسرائیل تن تنہا اتنا بڑا فیصلہ کر لے گا۔

’’ میں نہیں سمجھتا کہ ایسا ہو۔ امریکہ اسرائیل پر واضح کر رہا ہے کہ ایران پر حملے کی کیا قیمت ہو سکتی ہے۔ دوسری جانب اسرائیل کے شہریوں کی اکثریت بھی جنگ کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کر رہی ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ وزیراعظم نیتن یاہواپنے ارادے کو موخرکر سکتے ہیں اور وہ انتظار کریں گے کہ امریکہ ، اقوام متحدہ کے اراکین بشمول اس کے مستقل رکن ممالک اور ایران کے آئندہ ماہ جو مذاکرت ہونے جا رہے ہیں ان کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ اور اس کے بعد ہی کوئی فیصلہ کریں گے‘‘

اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ اسرائیل امریکہ کی آشیرباد کے بغیر ایران پر حملہ کر دیتا ہے، تو صدر اوباما کے سامنے کیا راستے ہوں گے؟ اس سوال کے جواب میں میکمینس کا کہنا تھا کہ امریکہ کے لیے بظاہر بہت مشکل صورت پیدا ہو جائے گی۔

’’ اگراسرائیل حملہ کر دیتا ہے تو کیا امریکہ اس حملے کی حمایت کرے گا، غالبا نہیں، مگر کیا وہ اسرائیل کو ایران کی جوابی کارروائیوں سے بچانے میں مدد دے گا، جی ہاں کیونکہ وہ امریکہ کا اتحادی ملک ہے۔ لیکن اس صورت میں زمین پر جنگ ہو رہی ہو گی اسرائیل اور ایران کے درمیان، اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان لبنان میں، اس موقع پرایران مشرق وسطی میں موجود امریکی فورسز کے خلاف بھی کارروائی کر سکتا ہے اس طرح بہت سنگین بحران ہو گا جس میں بڑے مشکل فیصلے کرنا ہوں گے ‘‘

ڈوئل میکمینس کے مطابق امریکہ کی عسکری قیادت بھی نہیں چاہتی کہ اسرائیل ایران پر حملے میں جلد باری کرے۔ کیونکہ میکمینس کے بقول اس عمل سے افغانستان اور مشرق وسطی میں موجود امریکی فوجوں کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔

ایسے میں جب جنگ کے لیے امریکہ اور بذات خود اسرائیل میں عوامی حمایت کم تر سطح پر ہے، دنیا خاص طور پر یورپی اتحادی ممالک عالمی معاشی بحران سے نکلنے کی جدوجہد کر رہے ہیں، افغانستان اور پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات پائے جاتے ہیں، کیا امریکہ ان حالات میں کوئی خدشہ مول لے سکتا ہے؟ اس بارے میں امریکی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ فی الوقت تو حالات اس کی اجازت نہیں دیتے لیکن اس خطے میں امریکی موجودگی کی ہیت آئندہ چھ ماہ میں یا ایک سال میں تبدیل ہو جائے گی، اس دوران اگر سفارتی کوششیں بھی ایران کو اس کے جوہری پروگرام سے روکنے میں کارگر ثابت ہنیں ہوتیں تو صدر اوباما امریکہ کے اندر ایران پر حملے کے لیے حمایت اکٹھی کرتے ہوئے ایسی کارروائیوں کی توثیق کر سکتے ہیں۔

کیا ایران کا یہ استدلال وزن نہیں رکھتا کہ جب اس خطے میں پاکستان، بھارت، روس اور چین جیسے ممالک کے پاس جوہری استعداد ہے اور دیگر کئی ملکوں کے پاس بھی جوہری ہتھیار ہیں تو اس کے لیے ممانعت کیوں جب کہ وہ پرچار بھی کرتا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے، اس پر ڈوئل میکمینس نے کہا کہ ایران کے لیے جوہری ہتھیاروں پر اعتراض اس لیے کیا جاتا ہے کہ اس سے اسرائیل کی سلامتی کو خطرہ ہے۔

’’ قانونی جواز کے طور پر، یا اصولوں کی بنیاد پر ایران یہ استدلال پیش کر سکتا ہے لیکن عملی طور پر ایران کے اپنے پڑوسی اسے خطرہ سمجھتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ بھی اسے خطرہ سمجھتے ہیں تو اس معاملے کو ایک حقیقت کے طور پر نمٹانے کی ضرورت ہو گی۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ایران کا جوہری پروگرام اور اسرائیل کے ساتھ اس کی بڑھتی ہوئی کشیدگی صدراوباما کی خارجہ پالیسی کا بھی ایک امتحان ہے اور آئندہ چند ماہ اس حوالے سے مشکل فیصلوں کے متقاضی ہو سکتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG