امریکہ میں بھارت کے سابق سفیر، َللِت مان سنگھ آج کل نئی دہلی میں انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ کونفلکٹ سٹڈیز کے رکن ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گذشتہ ہفتے واشنگٹن میں ہونے والی بات چیت سے امریکہ اور بھارت کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے اور بعض شکو ک و شبہات اور بد گمانیوں کو دور کرنے میں مدد ملی ہے۔
سفیر مان سنگھ کہتے ہیں کہ صدر کلنٹن کی صدارت کی دوسری مدت کے آخری برسوں میں جب یہ مکالمہ شروع ہوا تھا تو امریکہ اور بھارت کا اندازِ فکر مختلف تھا۔’’امریکیوں کی نظریں ہمیشہ لمبے عرصے پر رہتی تھیں جب کہ ہمیں ان چیزوں کی فکر ہوتی تھی جو فوری طور پر اہم تھیں۔ اس زمانے میں بڑا مسئلہ امریکہ کی طرف سے لگائی ہوئی پابندیوں کا تھا۔ یہ مسئلہ بھی تھا کہ امریکی سویلین نیوکلیئرشعبے میں تعاون پر بات چیت کے لیے تیار نہیں تھے۔‘‘
ٹریسیٹا شیفر واشنگٹن ڈی سی میں سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز میں جنوبی ایشیا کے پروگرام کی ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ماضی میں بھارت کے ساتھ مذاکرات میں بیشتر توجہ دو طرفہ مسائل پر رہی تھی۔ دونوں ملکوں کے لیے مستقبل میں دور تک دیکھنا دشوار تھا اور ساری توجہ ان دو طرفہ امور پر مرکوز رہتی تھی جو بھارت اور امریکہ کے لیے فوری طور پر اہم تھے۔
11 ستمبر 2001 کے دہشت گردوں کے حملوں کے بعد، امریکہ کے ایجنڈے میں سکیورٹی کے معاملات اہم ہوگئے۔ سفیر مان سنگھ کہتے ہیں کہ جارج ڈبلو بش کے عہدِ صدارت میں بیشتر توجہ بھارت کے خلاف لگائی ہوئی ان پابندیوں پر رہی جو 1998 کے نیوکلیئر ٹیسٹ کے بعد امریکہ نے لگائی تھیں۔لیکن صدر اوباما کے زمانے میں تعلقات کو زیادہ وسیع تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ اب اسٹریٹجک پارٹنر شپ کو نئے معنی مِل گئے ہیں اور مشترکہ مسائل کے بارے میں ایک جیسا اندازِ فکر اپنا لیا گیا ہے ۔
سفیر مان سنگھ کا کہنا ہے’’ہم نے ایک دوسرے کے تصورات کو قبول کر لیا ہے۔ بھارت جانتا ہے کہ یہ ایسی دوستی ہے جس سے اسے عالمی طاقت بننے میں، غربت دور کرنے میں اور بھارت میں ٹیکنالوجی اور سرمایہ لانے میں مدد ملے گی۔ امریکہ بھی یہ بات سمجھ گیا ہے کہ پاکستان ، افغانستان اور ایران میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی روشنی میں ، مستقبلِ قریب کا وقت بھی اہم ہے ۔یہ اہم مسائل ہیں جنہیں فوری توجہ کی ضرورت ہے۔‘‘
اسٹریٹجک ڈائیلاگ کی میٹنگ سے پہلے، امریکہ اور بھارت کے درمیان 18 الگ الگ مسائل پر مکالمے ہو چکے تھے۔ گذشتہ ہفتے جو میٹنگ ہوئی اس کا مقصد پہلے ہونے والی میٹنگوں کو یکجا کرنا تو نہیں تھا لیکن اسٹریٹجک ڈائیلاگ میں بات آگے ضرور بڑھی۔ مان سنگھ کہتے ہیں کہ اس عمل کی ابتدا بل کلنٹن کی صدارت کے آخری سال میں ہوئی تھی۔ جارج ڈبلو بش کے دور میں یہ سلسلہ جاری رہا اور اب صدر اوباما اسے اور آگے لے جا رہے ہیں۔
اسٹریٹجک ڈائیلاگ میں بہت سے موضوعات پر بات چیت ہوئی جن میں دہشت گردی اور نیوکلیئر اسلحہ سرِ فہرست تھے ۔ ایجنڈے میں جنوبی ایشیا کے ملکوں ، خاص طور سے پاکستان اور افغانستان کے بارے میں بات چیت بھی شامل تھی ۔
سفیر مان سنگھ کہتے ہیں’’مجھے اس بات پر مایوسی ہوئی کہ امریکہ نے افغانستان میں بھارت کے رول کے بارے میں زیادہ واضح موقف اختیار نہیں کیا۔ بھارت اپنی سکیورٹی کے لیے افغانستان کو بہت اہم سمجھتا ہے ۔ ہم یہ امید لگائے ہوئے تھے کہ افغانستان کے بارے میں بات چیت کے نتیجے میں سیاسی تصفیے میں بھارت کو زیادہ اہم رول ملے گا۔‘‘
سفیر مان سنگھ کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کے لیے بھارت کو امریکہ کی حمایت کی بھی امید تھی۔لیکن امریکہ نے بھارت کی پوری طرح حمایت نہیں کی جب کہ روس، برطانیہ اور فرانس جیسے E-5 کے رکن ممالک پہلے ہی کھل کر بھارت کی امید واری کی حمایت کر چکے ہیں۔
بھارت جلد ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بننے والا ہے ۔ٹریسٹیا شیفرکہتی ہیں کہ بھارت کی مستقل رکنیت پر غور کرنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔’’سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے لیے آپ کو موجودہ سکیورٹی کونسل کا ووٹ درکار ہو گا۔ یہ اس سلسلے میں پہلا قدم ہوگا۔ لیکن ہر کوئی جانتا ہے کہ اگر بھارت کی مستقل رکنیت کا قوی امکان ہوا تو چین یقیناً بھارت کی حمایت نہیں کرے گا۔‘‘
امریکہ اور بھارت کو اس سال باہم تعاون کے اظہار کا ایک اور موقع ملے گا جب صدر اوباما نومبر میں بھارت کے دورے پر جائیں گے۔