صدر باراک اوباما نے امریکہ اور بھارت کے تعلقات کو اکیسویں صدی کی ایک اہم شراکت داری قرار دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ اس سال نومبر میں نئی دہلی کا دورہ کریں گے ۔
امریکی صدر واشنگٹن میں دونوں ملکوں کے درمیان جمعرات کو شروع ہونے والے اسٹریٹیجک مذاکرات کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ انھوں کہا کہ بھارت اُس مستقبل کے لیے ناگزیر ہے جس کا امریکہ متلاشی ہے۔
چار روزہ مذاکرات میں امریکی وفد کی قیادت وزیر خارجہ ہلری کلنٹن اور بھارتی وفد کی سربراہی اُن کے بھارتی ہم منصب ایس ایم کرشنا کر رہے ہیں۔دُنیا کی دونوں بڑی جمہوریتوں نے اس موقع پر عالمی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اِنسداد دہشت گردی اور دوطرفہ تجارتی تعاون کو وسیع کرنے کا عزم کیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے بات چیت کے آغاز پر بھارت کے عالمی اور اقتصادی طاقت بن کر اُبھرنے کے کردار کی تعریف کی۔ اُنھوں نے دو طرفہ تعلقات کو ایک ایسے نئے مرحلے میں لے جانے کی ضرور ت پر زور دیا جس میں بھارت اور امریکہ کے درمیان شراکت داری کا مرکزی نکتہ علاقائی سلامتی، دفاع اور صاف توانائی جیسے شعبوں میں تعاون ہو۔
ہلری کلنٹن نے کہا کہ پچھلے سال دو طرفہ تجارت کا حجم 66 ارب ڈالر تھا جو 1990ء میں امریکہ اور بھارت کے درمیان تجارت کے سالانہ حجم سے دس گناہ زیادہ ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ واشنگٹن میں ہونے والے مذاکرات میں دونوں جانب پائے جانے والے شکوک وشبہات کو دور کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی جن میں افغانستان کے مستقبل کے بارے میں بھارتی خدشات اور بھارت میں اقتصادی اصلاحات کے حوالے سے امریکی خدشات شامل ہیں۔
بھارتی وزیر خارجہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ جنوبی ایشیاء میں امن و استحکام سے دونوں ملکو ں کے مفادات منسلک ہیں ۔ اُنھوں نے دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف لڑائی میں مشترکہ کوششوں کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔
وزیر خارجہ کرشنا نے کہا کہ امریکہ اور بھارت دونوں ہی دہشت گردی کا شکارہو ئے ہیں اور 2008 ء میں ممبئی میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی تحقیقات میں امریکی حمایت کا شکریہ ادا کیا۔
دو طرفہ مذاکرات میں 2008 ء میں امریکہ کے ساتھ طے پانے والا وہ معاہدہ بھی زیر بحث آئے گا جس کے تحت بھارت کو سویلین جوہری ٹیکنالوجی تک رسائی دی گئی ہے اور توانائی کے شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو بھارت کی منڈی تک رسائی دی جائے گی۔