امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ برطانیہ میں مقیم ایک سابق روسی جاسوس اور اس کی بیٹی کو قتل کرنے کے لیے کیمیائی ہتھیار کے غیر قانونی استعمال پر روس کے خلاف نئی اقتصادی پابندیاں عائد کرے گا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے نئی پابندیوں کے نفاذ کا اعلان بدھ کی شب کیا جو رواں ماہ ہی نافذ العمل ہوں گی۔
امریکی اعلان کے ردِ عمل میں واشنگٹن ڈی سی میں واقع روسی سفارت خانے نے اپنے ملک پر عائد کیے جانے والے الزامات کو بے سروپا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ روسی حکام کو بارہا مطالبات کے باوجود اب تک ان الزامات کے بارے میں کوئی ثبوت نہیں دیا گیا۔
روسی سفارت خانے کے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے بھی اس بارے میں روس کے سوالوں کے جواب دینے سے انکار کردیا ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ کو یقین ہے کہ رو س نے رواں سال مارچ میں برطانیہ کے شہر سالسبری میں سابق جاسوس سرگئی اسکریپال اور ان کی صاحب زادی یولیا پر قاتلانہ حملے میں نووی چوک نامی اعصابی گیس استعمال کی تھی۔
محکمۂ خارجہ نے بدھ کو اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ روس کے اس اقدام کی پاداش میں اس کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کی جارہی ہیں جن کے بارے میں کانگریس کو مطلع کردیا گیا ہے۔
قانون کے مطابق امریکی حکومت کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندیوں کے بارے میں کانگریس کو مطلع کرنا ضروری ہے جس کے 15 روز کے بعد یہ پابندیاں نافذ ہوجاتی ہیں۔
امریکی محکمۂ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ نئی پابندیوں کے بارے میں کانگریس کو چھ اگست کو مطلع کیا گیا تھا اور یہ پابندیاں 22 اگست کو موثر ہوجائیں گی۔
محکمۂ خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ نئی پابندیوں کے تحت روس کو کئی ایسی اشیا کی برآمد پر پابندی ہوگی جن کا تعلق قومی سلامتی سے ہوسکتا ہو۔
امریکہ نے ایسی ہی پابندیاں رواں سال فروری میں شمالی کوریا پر بھی عائد کی تھیں۔ پابندیوں کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے امریکی حکام نے کہا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ شمالی کوریا نے اپنے سربراہ کم جونگ ان کے سوتیلے بھائی کو 2017ء میں ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور کے ہوائی اڈے پر قتل کرنے کے لیے کیمیائی ہتھیار استعمال کیا تھا۔
برطانیہ نے اسکریپال پر حملے کا الزام روس پر عائد کیا تھا جس کی اس نے تردید کی تھی۔ برطانوی حکام کا کہنا ہےکہ حملے میں استعمال کی جانے والی 'نووی چوک' نامی گیس سابق سوویت یونین کے دور میں تیار کی گئی تھی اور یہ روسیوں کی ہی ایجاد ہے۔
روس نے اس الزام کی تردید کی تھی لیکن اس واقعے کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے درجنوں سفارت کاروں کو اپنے ہاں سے بے دخل کرچکے ہیں۔
امریکہ اور برطانیہ کے دیگر یورپی اتحادیوں نے بھی حملے سے متعلق برطانیہ کے موقف کی حمایت کی تھی اور برطانوی حکومت کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے طور پر اپنے ہاں تعینات درجنوں روسی سفارت کاروں کو ملک بدر کردیا تھا۔