امریکہ کی عدالت عظمیٰ میں اس حساس معاملے کی سماعت شروع ہوگئی ہے کہ آیا ایران ان لواحقین کو لگ بھگ دو ارب ڈالر زرتلافی ادا کرے گا یا نہیں جن کے عزیز امریکہ کے بقول ایران کے حمایت یافتہ دہشت گردوں کے حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
ان لواحقین میں 241 امریکی فوجیوں، میرینز اور بحری اہلکاروں کے رشتے دار شامل ہیں۔ یہ افراد اکتوبر 1983ء کو بیروت میں فوجی بیرک پر ہونے والے خودکش بم حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔ امریکہ کے مطابق اس کا ذمہ دار ایران کا حمایت یافتہ دہشت گرد گروپ حزب اللہ تھا۔
دونوں فریقوں کے وکلا نے بدھ کو عدالت میں اپنے اپنے دلائل پیش کیے۔
امریکی کانگریس نے 2014ء میں ایک قانون منظور کیا تھا جس کے تحت امریکہ میں منجمد ایرانی اثاثہ جات بشمول وہ فنڈز جو کہ کوئی اور فریق امریکہ میں ایران کے ساتھ لین دین کے لیے استعمال کرتا تھا، انھیں بھی ان متاثرین کو دیا جا سکتا ہے جو ایران پر مقدمہ کرنا چاہتا تھا۔
ایران کے مرکزی بینک کو یہ ادائیگی کرنا ہوگی اور اس بینک نے عدالت عالیہ میں درخواست کر رکھی تھی کہ وہ اس معاملے کو اٹھائے۔
مرکزی بینک کے وکلا کی دلیل ہے کہ کانگریس نے قانونی مقدمے میں براہ راست مداخلت کر کے امریکی حکومت، عدلیہ، قانون سازی اور انتظامیہ کے اختیارات کو علیحدہ کرنے والے آئین کی مخالفت کی ہے۔
متاثرہ خاندانوں کے وکلا کا موقف ہے کانگریس اپنی آئینی حدود میں ہی رہی ہے۔
ذیلی عدالتوں نے متاثرہ خاندانوں کے حق حصول زرتلافی کو برقرار رکھا تھا۔