ان قانونی تارکین وطن کو امریکہ کا گرین کارڈ اور شہریت حاصل کرنے میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو سرکاری فلاحی امدادی پروگراموں، مثلاً میڈی کیڈ، فوڈ اسٹپمس یا گھروں کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
امریکی قانون کے تحت تارکین وطن گرین کارڈ ملنے کے کم از کم پانچ سال کے بعد حکومت کی جانب سے فراہم کردہ عوامی مفاد کے پروگراموں مثلاً میڈی کیڈ، فوڈ اسٹمپس اور گھروں کی معاونت کے لیے درخواست دینے کے اہل ہوتے ہیں۔
یہ اقدامات پیر کے روز امیگریشن پالیسی میں تبدیلی کے اعلان میں سامنے آئے ہیں، جس کا مقصد امریکہ آنے والے تارکین کی تعداد کم کرنے کی ٹرمپ انتظامیہ کی کوشش ہے۔
واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ پالیسی پیر کے روز فیڈرل رجسٹرز ویب سائٹ پر شائع ہوئی ہے جو دو مہینوں میں نافذ ہو جائے گی۔
اس پالیسی میں امریکہ میں مستقل سکونت یعنی گرین گارڈ اور شہریت حاصل کرنے کے لیے نئے معیارات مقرر کیے گئے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ ان تارکین وطن کی تعداد محدود کرنا چاہتی ہے جو امریکی ٹیکس گزاروں کے فراہم کردہ فنڈز کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے افراد کا تعلق وسطی امریکی ملکوں سے ہوتا ہے جو سرحد عبور کر کے امریکہ میں داخل ہو جاتے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ چاہتی ہے کہ ان کی بجائے ایسے افراد کو امریکہ کی امیگریشن دینے کی حوصلہ افزائی کی جائے جو اعلیٰ مہارتیں رکھتے ہیں اور صاحب حیثیت ہیں۔
اخبار کا کہنا ہے کہ امکان یہ ہے کہ نئے امیگریشن قانون کے تحت گرین کارڈ کے حصول کی درخواستوں کی پراسسنگ میں، مالی حیثیت، تعلیم، عمر اور انگریزی زبان کی مہارت کو زیادہ اہمیت دی جائے گی۔
یوایس سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز کے قائم مقام ڈائریکٹر کن کوچنالی نے وائٹ ہاؤس میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ان کا ادارہ امیگریشن قانون کے عناصر کو زیادہ وضاحت سے بیان کرنے کی جانب بڑھ رہا ہے۔
یہ اعلان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ٹرمپ انتظامیہ امیگریشن سسٹم میں طریقہ کار کی نئی بندشیں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ میکسیکو کی سرحد پر فولادی دیوار تعمیر کرنے جا رہی ہے تاکہ امریکہ داخل ہونے والے تارکین وطن کی تعداد میں کمی لائی جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ پناہ حاصل کرنے کے نظام کو بھی مزید سخت تر بنایا جا رہا ہے اور قانونی دستاویزات نہ رکھنے والوں کو پکڑنے اور ملک بدر کرنے کے لیے حکومت کے اختیارات میں توسیع کی جا رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امیگریشن پالیسی میں تبدیلی کے نتیجے میں امریکہ میں خاندان کی بنیاد پر امیگریشن کی تعداد میں ڈارمائی حد تک کمی ہو سکتی ہے، خاص طور پر میکسیکو، وسطی امریکہ اور افریقی ملکوں سے تعلق رکھنے والوں کی، جہاں کی معیشتیں تباہ حال ہیں اور لوگوں کی آمدنیاں کم ہیں۔
امیگریشن کے حقوق کے لیے کام کرنے والے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ انہیں توقع ہے کہ نئے قانون کے خلاف فوری طور پر بڑی تعداد میں مقدمات دائر ہوں گے۔