پانچ ہفتوں تک جاری رہنے والے شٹ ڈاؤن کے بعد امریکہ کی سرکاری ایجنسیاں اور دفاتر نے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ معطل ملازمین کو ان کی تنخواہ نہ ملنے پر ان کا ازالہ کیا جائے گا۔
جمعے کو وائٹ ہاؤس نے کابینہ کے محکمہ خزانہ کے ساتھ ایک کانفرنس کال منعقد کی جس میں سرکاری آپریشنوں کی بحالی پر تبادلہ خیال کیا گیا جب کہ ایجنسیوں نے انتظامیہ اور پالیسی کے مسائل کے پس منظر سے نمٹنے کا آغاز کیا۔
35 دن تک جاری رہنے والے جزوی حکومتی شٹ ڈاؤن امریکہ کی تاریخ کا طویل ترین شٹ ڈاؤن ثابت ہوا ہے جس سے لگ بھگ آٹھ لاکھ سرکاری ملازمین تنخواہوں سے محروم ہو گئے اور بشمول تین لاکھ اسی ہزار کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا۔
جمعہ کو امریکی صدر نے بل پر دستخط کر دیے اور اعلان کیا کہ وہ تین ہفتے تک کے لیے سرکاری محکموں اور اداروں کی فنڈنگ کا سلسلہ دوبارہ شروع کر رہے ہیں۔
ٹرمپ نے میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کے لیے 5.7 ارب ڈالر کی منظوری کا مطالبہ کیا تھا جبکہ ڈیموکریٹک قانون سازوں نے رقم مختص کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
وائٹ ہاؤس کی انتظامیہ اور بجٹ ادارے کے قائم مقام چیف رسل ووٹ نے اداروں کو بتایا کہ ’’فوری طور پر اور منظم طریقے سے دوبارہ کھولا جائے گا‘‘۔
خوراک اور ادویات انتظامیہ کے کمشنر اسکاٹ گاٹلیب نے ہفتہ کو ٹوئٹر پر شئیر کیا کہ ادارہ جمعرات سے پہلے ملازمین کو تنخواہ کی ادائیگی نہیں کر سکتا۔
گاٹلیب نے ملازمین کو بتایا کہ ایف ڈی اے نے منگل کو اجلاس طلب کیا ہے۔ فنڈنگ میں طویل مدتی رکاوٹ سے اس پر گہرا اثر پڑے گا۔ اس ادارے نے ہمیشہ چیلنج کا سامنا کیا ہے۔
امریکہ کے خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے اپنے ملازمین سے کہا ہے کہ وہ ’پہلے اڑتالیس گھنٹوں میں تحمل‘ کا مظاہرہ کریں کیونکہ اکثر ملازمین کے سمارٹ فونز اور لیپ ٹاپ گذشتہ ایک ماہ سے بند پڑے ہیں اور اُن کی معمول کی اپ گریڈیشن بھی نہیں ہو سکی۔
شٹ ڈؤان کے دوران سرکاری محکموں کے ٹھیکوں میں بھی تاخیر ہوئی ہے اور فیڈرل ایوی ایشن نے نئے جہازوں اور روٹس کے پرمٹ بھی جاری نہیں کیے ہیں۔
دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں عجائب گھر اور چڑیا گھر عام عوام کے لیے منگل کو کھولے گا۔
سکیورٹیز اینڈ ایکسچنج کمیشن کے چیئرمین نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ایجنسی اس بات کا جائزہ لی رہی ہے کہ کام معمول پر آنے میں کتنا وقت درکار ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ کمیشن کے بعض یونٹس جیسے کارپوریٹ فائنانس، ٹریڈنگ کے شعبے عبوری مدت کے لیے اپنے پلان جاری کریں گے۔
شٹ ڈؤان کے سبب سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن نے حصص کی اولین عوامی فروخت کی منظوری بھی نہیں دی ہے اور بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے سال 2019ء کے آئی پی اوز میں تاخیر ہو سکتی ہے۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ اس شٹ ڈؤان کے سبب صدر ٹرمپ کے مالی سال 2020ء کے لیے دی گئی بجٹ تجاویز اور کانگریس کی اس پر سماعت میں بھی تاخیر ہو جائے گی۔۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ صدر اسٹیٹ آف یونین سے کب خطاب کریں گے لیکن امریکی انتظامیہ کے اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ صدر کا خطاب جنوری میں ہونے کا امکان نہیں ہے۔