امریکہ نے ایک بار پھر بھارت میں مذہبی و نسلی اقلیتوں کے تحفظ کا مسئلہ اٹھایا ہے اور ان پر ہونے والے حملوں اور امتیازی رویے پر اظہار تشویش کیا ہے۔
امریکہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بھارت کے آئین نے اقلیتوں کے تحفظ کی جو ضمانت دی ہے اس کو مکمل طور پر یقینی بنایا جائے۔
امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے اس سلسلے میں ایک رپورٹ محکمہ خارجہ میں بدھ کے روز جاری کی۔ اس سے قبل مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن نے بھی بھارت میں اقلیتوں پر ہونے والے حملوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
امریکی کانگریس سے منظور شدہ '2019 عالمی مذہبی آزادی رپورٹ' میں کہا گیا ہے کہ امریکی اہلکاروں نے بھارت میں حکمران اور حزب اختلاف کی جماعتوں، شہری تنظیموں، مذہبی آزادی پر نظر رکھنے والے کارکنوں اور مختلف اقلیتوں و فرقوں کے مذہبی رہنماؤں سے سال بھر تبادلہ خیال کیا جب کہ مذہبی آزادی کے احترام اور رواداری کو فروغ دینے کی اہمیت پر زور دیا۔
رپورٹ کے مطابق حکومتی اہلکاروں، ذرائع ابلاغ، رواداری کو فروغ دینے والی تنظیموں اور نجی اداروں کے ساتھ بات چیت میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ مذہبی اقلیتوں کی جائز تشویش اور فکر مندی پر توجہ دی جائے۔ امریکی اہلکاروں نے فرقہ وارانہ بیان بازی کی مذمت کی جب کہ آئین کی جانب سے فراہم کیے گئے تحفظ کو یقینی بنانے پر زور دیا۔
رپورٹ میں جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کے خاتمے اور پارلیمنٹ کے ذریعے شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) کی منظوری کا بطور خاص ذکر کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا کہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سمیت ہندو اکثریتی جماعتوں کے ذمہ داروں نے اقلیتوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دیے جب کہ سوشل میڈیا پر بھی مہم چلائی گئی۔
حکمران جماعت بی جے پی کے حوالے سے رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ انہوں نے گائے کے تحفظ کے نام پر تشدد کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جن میں قتل، ہجوم کا تشدد اور ڈرانا دھمکانا بھی شامل ہے۔
رپورٹ میں بعض نجی تنظیموں کے حوالے سے کہا گیا کہ تشدد برپا کرنے والوں کو قانونی کارروائی سے بچایا گیا جب کہ متاثرین کے خلاف ہی کارروائی کی گئی۔
'بھارت میں جمہوریت ضرور ہے لیکن اقلیتوں کے حالات ٹھیک نہیں ہیں'
انسانی حقوق کی ایک سرگرم کارکن تیستا سیتل واڈ نے اس رپورٹ کی تائید کی کہ مودی حکومت میں اقلیتوں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
تیستا سیتل واڈ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ پانچ چھ برس سے ملک میں نفرت کی ایک سیاست کی جا رہی ہے۔ حکومت کے نمائندے بھی اس مہم میں شامل ہیں۔
ان کے بقول اس ملک میں جمہوریت ضرور ہے لیکن اقلیتوں کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ ان پر آئے دن حملے ہو رہے ہیں جب کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ان کے مطابق تشدد برپا کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ اس کا مشاہدہ اکثر و بیشتر ہوتا ہے۔ خاص طور پر گائے کے تحفظ کے نام پر ہجوم کے ذریعے تشدد کے جو واقعات ہوئے ان میں ملزمان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
تیستا سیتل واڈ نے مزید کہا کہ جو بھی اس حکومت کے غلط فیصلوں کے خلاف بولتا ہے اسے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ حکومت نہ صرف یہ کہ اقلیتوں کے سلسلے میں سوال پوچھنے کی اجازت نہیں دیتی بلکہ کسی بھی معاملے میں مداخلت کو پسند نہیں کرتی۔
ان کے بقول حکومت یہ بات تسلیم ہی نہیں کرتی کہ بھارت کے شہریوں کو انسانی حقوق کے بارے میں یا کسی بھی مسئلے کے حوالے سے کوئی سوال پوچھنے کا حق ہے۔ اگر کوئی کچھ بولتا ہے تو اسے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ایسے بہت سے افراد کو جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے جنہوں نے حکومت کے غلط فیصلوں کے خلاف آواز بلند کی۔
مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن کی رپورٹ بھی مسترد
قبل ازیں بھارت نے مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن کی رپورٹ بھی مسترد کر دی تھی۔
مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن کی رپورٹ پر بھارت نے کہا تھا کہ اس کے شہریوں کو حاصل آئینی حقوق کے سلسلے میں کسی دوسری حکومت کو بولنے کا حق نہیں ہے۔
بھارت نے عالمی برادری پر زور دیا تھا کہ دفعہ 370 کو ختم کرنا اس کا داخلی معاملہ ہے جب کہ سی اے اے کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے مظلوم غیر مسلموں کو شہریت دینے کا انتظام کیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں بھارت کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ نشی کانت دوبے کو یکم جون کو لکھے گئے ایک خط میں کہا تھا کہ حکومت نے بھارت میں مذہبی آزادی کی صورت حال کی مذمت کرنے پر امریکی کانگریس کو مشورہ دینے والے ادارے کے ارکان کو بھارت آنے سے روک دیا جب کہ اس ادارے کے اراکین کو ویزا دینے سے بھی انکار کر دیا ہے۔