امریکہ میں معیشت کے بحران کے حل کے لیے صدر اوباما کی طرف سےپیش کیے جانے والے متعدد اقدامات پر ری پبلکن ایوان کی طرف سے حائل کی گئی رکاوٹوں کے پیش نظر اب صدر اس جانب توجہ دے رہے ہیں کہ وہ مسائل کی شکار معیشت اور معاشی مسائل کی زد میں آئے ہوئے امریکیوں کی فوری مدد کے لیے کانگریس کے بغیر کیاکچھ کر سکتے ہیں۔
اس سلسلے میں انہوں نے کاروباری افراد کے مسائل حل کرنے، طالبعلموں کو دیے جانے والے تعلیمی قرضوں کی ادائگی میں رعایتیں دینے اور مکانات کے قرضوں کے بحران کے شکار امریکیوں کی مدد کے لیے کچھ منصوبے پیش کیے ہیں ۔
اخبار’ فلاڈلفیا انکوائرر‘ نے صدر کی اِنہی کوششوں کو اپنے ایک اداریے کا موضوع بناتے ہوئے لکھا ہے کہ صدر نےاس سلسلے میں پہلے سے موجود وفاقی پروگراموںمیں رد و بدل کے ساتھ جو منصوبے پیش کیے ہیں وہ ایک کمزور معیشت کو بہتری کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے چھوٹے اقدامات ہو سکتے ہیں، لیکن یہ واشنگٹن کی طرف سے، جہاں عوام کے معاشی مسائل کے حل کے لیے ابھی تک بہت کم پیش رفت ہوئی ہے ، خاصے اہم اقدامات ہیں ۔
اخبار لکھتا ہے کہ اب تک صدر نے کاروباروں میں توسیع میں ، خاندانون کو اپنے مکانات کے قرضوں کی ادائیگی اور طالبعلموں کو اپنے کالج کے قرضوں کی ادائیگی میں مدد کے لیے کچھ ایسے منصوبے پیش کیے ہیں جو کانگریس کی طرف سے کسی اقدام کے بغیر انجام پا سکتے ہیں ۔
اخبار لکھتا ہے کہ سات اعشاریہ پانچ ملین امریکیوں کو جو طالبعلمی کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے جد و جہد کر رہے ہیں صدر کے یہ اقدامات ان کے بوجھ کوکچھ نہ کچھ کم کرنے کا سبب بنیں گے ۔ اسی طرح مکانات کے قرضوں کے بحران کے شکار امریکیوں کی مدد کےلئے جن کے مکانات کی قیمتیں مارکیٹ کی قیمتوں سے بہت کم ہو گئی ہیں ، صدر کی طرف سے پیش کیے گئے پروگرام کے تحت مسائل کے شکار مکان مالکان کو اپنے مکانات کے قرضے موجودہ تاریخی طور پر کم ترین شرح سود پر ری فائنانس کرانے کی سہولت فراہم کی جائے گی ۔ اخبار لکھتا ہے کہ اگرچہ اس پروگرام سے ان چار اعشاریہ دو ملین امریکی خاندانوں کی مدد تو نہیں ہو سکے گی جن کے گھروں کو قرقی کا خطرہ ہے لیکن یہ ایک اچھا اقدام ہے ۔
اور اخبار لکھتا ہے کہ اب جب صدر اپنے ان پروگراموں کو پیش کرتے ہوئے یہ واضح کریں گے کہ بڑے اقدامات کے لیے انہیں کانگریس کی مدد درکار ہے جو اس وقت ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے تو ممکن ہے کانگریس بھی، جس کی عوام میں مقبولیت کی شرح اس وقت تاریخی طور پر اپنی کم تر سطح یعنی نو فیصد تک پہنچ گئی ہے، عوام کی خوشنودی کے لیے صدر کے ساتھ مل کر عوام کے مسائل کے حل کی طرف کچھ توجہ دینے پر آمادہ ہو جائے۔
اور اخبار ’لاس ویگاس سن‘ نے بھی اپنے ایک اداریے میں مکانات کی قرقی کے حوالے سے امریکہ میں دو جماعتی سیاسی رسہ کشی کو اپنے ایک اداریے کا موضوع بنا یا ہے ۔ اخبار نے صدر اوباما کے پیش کیے گئے منصوبے کی تعریف کی ہے جب کہ عوامی مسائل کے حل کے لیے ری پبلکنز کے رویے پر تنقید کی ہے۔
اخبار نے خاص طور پر میسا چوسٹس کے سابق گورنر اور ری پبلکن صدارتی امیدوار مٹ رامنی کی جانب سے ہاؤزنگ کے بحران کے بارے میں ایک حالیہ تبصرے پر تنقید کی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مکانات کے قرقی کا مسئلہ نظام کے تحت حل کیا جانا چاہیئے ،ا ور یہ کہ اس ضمن میں مارکیٹوں کو اپنا کردار ادا کرنے دیا جانے چاہیئے۔اخبار لکھتا ہے کہ مٹ رامنی وہ واحد ری پبلکن صدارتی امیدوار نہیں ہیں جنہوں نے ایسی چیزیں کہی ہیں ۔ لگ بھگ تمام ری پبلکن صدارتی امیدوار اس سے ملتی جلتی باتیں کرتے رہے ہیں ۔ وہ حکومت کی جانب سے کسی بھی مدد یا مداخلت کے خلاف بات کرتے ہیں ۔ جب کہ سسٹم نے عام لوگوں کی زندگی میں ایسے مسائل پیدا کر دیے ہیں کہ جن سے وہ حکومت کی مدد کے بغیر نہیں نمٹ سکتے ۔
اخباردوسری طرف صدر اوباما کی جانب سے عوام کے مسائل کےحل کی کوششوں کو سراہتے ہوئے لکھتا ہے کہ صدر اوباما نے مکانات کی قرقی کے مسائل سے دوچار امریکیوں کی مددکے لیے جو منصوبہ پیش کیا ہے وہ اگرچہ بہت جامع تونہیں ہے لیکن وہ کم از کم صحیح سمت کی جانب ایک قدم تو ہے اور اس میں انہوں نے مسائل کے شکار لوگوں کے لیے حکومت کی جانب سے جس مدد کی پیش کش کی ہے وہ ابھی تک کسی نے نہیں کی ہے ۔
اور اخبار ’نیو یارک پوسٹ‘ نے بھی امریکہ میں جاری دو جماعتی سیاسی کشمکش اور کانگریس پر عوامی اعتماد میں دن بدن کمی اور اس سلسلے میں صدر اوباما کی طرف سے امریکی کانگریس کو ری پبلکن کانگریس قرار دے کر خود کو کانگریس سے الگ ظاہر کرنے کے تاثرکو اپنے ایک اداریے کا موضوع بنایا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ کیپیٹل ہل پر ڈیموکریٹس کی کامیابیوں کے فقدان کے پیش نظر صدر اوباما بلا شبہ یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ ری پبلکنز میں گھر گئے ہیں اوروہ عوا م کی ہمدردیاں اپنے حق میں کرنے کے لیے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ کانگریس پر ری پبلکنز کا غلبہ ہے۔
لیکن اخبار لکھتا ہے کہ کانگریس کو ایک ری پبلکن غلبے والی کانگریس قرار دے کر اور خود کو ادارے سے الگ ظاہر کر کے وہ اس مایوس کن کار کردگی کا جواز پیش نہیں کر سکتے جس کا مظاہرہ وہ اور دوسرے ممتاز ڈیموکریٹس حالیہ دنوںمیں کرتے رہےہیں ۔ کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ری پبلکنز وفاقی حکومت کی تین میں سے صرف ایک شاخ کے بھی صرف نصف حصےپر کنٹرول رکھتے ہیں جب کہ باقی تمام حصوں پر ڈیموکریٹس کا غلبہ ہے ۔
اخبار لکھتا ہے کہ صدر اوباما کانگریس کو جو اپنی حالیہ کار کردگی کے باعث عوام میں اپنی مقبولیت دن بدن کھو رہی ہے ایک ری پبلکن کانگریس قرار دے کر اور خود کو اس سے الگ ظاہر کرنے کا تاثر اس لیے دے رہے ہیں کہ وہ اپنے دوبارہ انتخاب کے لیے عوام میں اپنی مقبولیت کی شرح میں اضافہ کر سکیں ۔ اخبار لکھتا ہے کہ اگر ڈیموکریٹس سینیٹ میں اپنی اکثریت کا اعتراف نہیں کرنا چاہتے تو ووٹرز اگلے نومبر میں انہیں در حقیقتت اس اکثریت سے محروم کر سکتے ہیں اور پھر وہ اصل میں ایک ری پبلکن کانگریس بن سکتی ہے ۔