امریکہ کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں دنیا کے مختلف ملکوں سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے آنے والے طلبہ کی تعداد میں مسلسل تیسرے برس بھی کمی واقع ہوئی ہے۔
بین الاقوامی تدریس کے امریکی ادارے کی ایک نئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2018 میں امریکی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بین الاقوامی طالب علموں کے داخلوں میں ایک فیصد کی کمی واقع ہوئی۔ اس سے پہلے 2017 میں یہ کمی تین فیصد اور 2016 میں سات فیصد رہی۔
صدر ٹرمپ کی انتظامیہ اس کمی کی وجہ امریکہ کے سیاسی ماحول کے بجائے زیادہ ٹیوشن فیس کو قرار دیتی ہے۔
امریکی یونیورسٹیاں اپنے اخراجات کے لیے ٹیوشن فیس پر انحصار کرتی ہیں اور بین الاقوامی طلبہ کی تعداد میں مسلسل کمی سے امریکی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
کچھ تعلیمی اداروں کا کہنا ہے کہ غیر ملکی طلبا و طالبات کی تعداد میں مسلسل گراوٹ کی وجہ صدر ٹرمپ کے تارکین وطن سے متعلق سخت بیانات ہیں جن کے باعث غیر ملکی طالب علم امریکہ آنے سے ہچکچاہٹ محسوس کر رہے ہیں اور وہ امریکہ کے بجائے یورپی ممالک، چین اور روس کا رُخ کر رہے ہیں۔
تاہم امریکی محکمہ خارجہ، جو اس سالانہ رپورٹ کے اخراجات ادا کرتا ہے، اس تاثر کی تردید کرتا ہے۔ محکمہ خارجہ کے تعلیم اور ثفافتی امور کے بیورو کی اعلیٰ اہل کار کیرولائن کیساگرینڈے کا کہنا ہے کہ غیر ملکی طالب علم امریکی یونیورسٹیوں کی بڑھتی ہوئی فیسوں کے باعث یہاں آنے سے کترانے لگے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ کمی دراصل سابق صدر اوباما کے دور میں زیادہ تھی اور موجودہ صدر ٹرمپ کے دور میں صورت حال بتدریج بہتر ہو رہی ہے۔
انہوں نے 2016 اور 2017 سے موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ 2018 میں غیر ملکی طالب علموں کی تعداد میں کمی کا تناسب خاصی حد تک بہتر ہوا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ صدر ٹرمپ نے غیر ملکی طلبہ کے لیے وسائل میں اضافہ کیا ہے۔
سالانہ رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم کی غرض سے امریکہ آنے والے طالب علموں کی اکثریت تعلیم مکمل کرنے کے بعد پیشہ ورانہ تربیت کے لیے امریکہ رُک جاتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک پروگرام کے تحت دو لاکھ 20 ہزار سے زائد طالب علموں کو عارضی کام کے لیے امریکہ میں رہنے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ تعداد 2017 کے مقابلے میں 10 فیصد زیادہ ہے۔
اس وقت سب سے زیادہ طالب علم چین، بھارت، جنوبی کوریا اور سعودی عرب سے امریکہ آتے ہیں۔ تاہم چین میں اقتصادی ترقی کے باعث کچھ امریکی یونیورسٹیوں میں چینی طالب علموں کی تعداد کم ہوئی ہے۔
مثال کے طور پر الاباما یونیورسٹی میں گزشتہ برس 266 چینی طالب علم آئے۔ یہ تعداد ایک سال پہلے کے مقابلے میں 43 فی صد کم ہے۔ اسی طرح آئیووا یونیورسٹی اور کینساس اسٹیٹ یونیورسٹی میں بھی چینی طالب علموں کی تعداد میں ایک تہائی کمی واقع ہوئی ہے۔
چینی طالب علموں کی کمی کی کئی وجوہات بیان کی جاتی ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ ویزے کے حصول میں بڑھتی ہوئی مشکلات اور دونوں ملکوں کے درمیان جاری تجارتی جنگ ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ میں موجود چینیوں کی طرف سے تعلیمی جاسوسی کے شبہات بھی اس کمی کی وجہ بنے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ امریکہ کی کچھ یونیورسٹیوں نے چینی طالب علموں کی تعداد میں کمی کو پورا کرنے کے لیے دیگر ایشیائی ممالک میں اپنے عملے کو بھیج کر وہاں کے طالب علموں کو داخلے کے لیے راغب کرنے کی پالیسی اپنائی ہے جس کے باعث برازیل اور بنگلہ دیش جیسے ملکوں کے طالب علموں کی تعداد میں اس سال 10 فی صد اضافہ دیکھا گیا ہے۔