رسائی کے لنکس

چین اور شمالی کوریا کا بڑھتا ہوا خطرہ: امریکی وزیر دفاع کا خطے کا دورہ


امریکی وزیر دفاع جنوبی کوریا کے دورے پر
امریکی وزیر دفاع جنوبی کوریا کے دورے پر

امریکی دفاعی حکام انڈو پیسیفک علاقے، چین اور شمالی کوریا کی طرف سے بڑھتے ہوئے خطرات پر اپنی توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ روس کے خلاف جنگ میں یوکرین کے لیے امریکی اور جرمن ساختہ جنگی ٹینکوں اور اربوں ڈالر کی اضافی فوجی مدد کے حصول میں معاونت کے بعد اب امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن اس خطے کا اپنا چھٹا سرکاری دورہ کر رہے ہیں ۔

ان کے دورے کا آغاز سیئول میں اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔اس کے بعد وزیر دفاع فلپائن کے دورے کے دوران حال ہی میں منتخب ہونے والے صدر فرڈینینڈ مارکوس جونیئر اور قومی سلامتی کے لیے ان کی نئی ٹیم سے ملاقات کریں گے ۔

ایک سینئر امریکی دفاعی اہل کار نے چین اور شمالی کوریا دونوں کی طرف سے پہلے سے زیادہ جارحانہ رویے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ’’انڈو پیسیفک میں سیکیورٹی کا ماحول روز بروز مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے ۔‘‘

پینٹاگان کے طے کردہ اصولوں کے تحت نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک اہل کار نے صحافیوں کو ایک بریفنگ کے دوران بتایا کہ ’’پی آر سی (عوامی جمہوریہ چین) کےعدم استحکام کا باعث بننے والے آپریشنل رویے میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘ اس کے تحت خطرناک فضائی مداخلت اور بیجنگ کی طرف سے بحیرہ جنوبی چین میں بحری ملیشیا کے جہازوں کی بڑی تعداد کا استعمال شامل ہے ‘‘۔

امریکی دفاعی حکام نے شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں میں اضافے اور بیلسٹک میزائل تجربات کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا اور اس حوالے سے کیے جانے والے تجربات کو غیر معمولی قرار دیا۔

شمالی کوریا کےجارحانہ جنگی رویے نے جنوبی کوریا کے خدشات میں اضافہ کیا ہے جہاں اس ماہ کے شروع میں صدر یون سک یول نے تجویز پیش کی تھی کہ واشنگٹن کو جزیرہ نما کوریا میں جوہری ہتھیاروں کو دوبارہ نصب کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے یا پھر سیئول اپنے جوہری ہتھیاروں کی تیاری شروع کر سکتا ہے۔

ایک دوسرے سینئر امریکی دفاعی اہل کار نے کہا ہے کہ آسٹن منگل کو یون اور جنوبی کوریا کے وزیر دفاع لی جونگ سوپ کے ساتھ ملاقاتوں میں واشنگٹن کے بھرپور توسیعی ڈیٹرنس کے عزم کو اجاگر کریں گے۔لیکن عہدیدار نے خبردار کیا کہ جنوبی کوریا میں امریکی جوہری ہتھیاروں کی تنصیب کا موضوع زیر بحث نہیں آئے گا۔

اہل کار نے کہا کہ ہم جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ ہماری توجہ کا محور توسیعی ڈیٹرنس کی اہمیت پر ہے جس میں امریکی صلاحیتوں کی مکمل رینج شامل ہے اور اس میں یقینی طور پر ہماری جوہری اور روایتی صلاحیتیں اور ہمارے میزائل دفاع (کا نظام) شامل ہے ۔اس میں بڑھتا ہوا تعاون اور اضافی تربیت بھی شامل ہےجس میں اس سال کے آخر میں جزیرہ نما کوریا پر امریکی جنوبی کوریا کی مشترکہ جنگی مشقوں کا دوبارہ آغاز بھی شامل ہے۔ اہل کار نے مزید کہا کہ ’’ہم مزید کام کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔‘‘

امریکی دفاعی حکام بھی توقع کرتے ہیں کہ یوکرین کے لیے سیئول کی حمایت اور جنوبی کوریا کی دفاعی صنعت کے ساتھ تعاون کو بڑھانے کے موضوعات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ حکام جنوبی کوریا کو جدید ہتھیاروں کی صنعت میں عالمی رہنما کے طور پر سراہتے ہیں ۔

جنوبی کوریا میں ان کی ملاقاتوں کے بعدآسٹن فلپائن جائیں گےجہاں وہ زمبوانگا میں اپنے فلپائنی ہم منصبوں کے ساتھ کام کرنے والے امریکی فوجیوں سے ملاقات کریں گے ۔وزیر دفاع چین کے بارے میں مشترکہ خدشات پر منیلا کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کا بھی جائزہ لیں گے ۔ ایک تیسرے سینئر امریکی دفاعی اہل کار نے بھی نام نہ دینے کی شرط پر بتایا : ’’ ہم اس بارے میں مؤثر انداز میں بات کریں گے کہ ہم جنوبی بحیرہ چین میں حالیہ وقتوں میں ہراساں کرنے اور جارحانہ دباؤ ڈالنے کے اقدامات کا مقابلہ کرنے کیلئے مل کر کیا کر سکتے ہیں۔

فلپائن نے جزائر کے قریب ’چینی سرگرمیوں‘ کے بعد فوجی موجودگی کو تقویت دینے کا حکم دیا ہے۔ اہل کار نے کہا کہ منیلا اور واشنگٹن کے درمیان برسوں کے کشیدہ رویے کے بعد پینٹاگان ’’تعلقات میں بہت مثبت تبدیلی‘‘دیکھ رہا ہے۔

امریکہ، جنوبی کوریا کی بحری افواج مشترکہ مشقیں کریں گی
امریکہ، جنوبی کوریا کی بحری افواج مشترکہ مشقیں کریں گی

امریکی حکام کے مطابق پینٹاگان فلپائن کو انڈو پیسیفک ممالک کے بڑھتے ہوئے اتحاد کے ایک اہم حصے کے طور پر دیکھتا ہے جس کا مقصد امریکی مدد کے ساتھ اور اس کے بغیر بھی بیجنگ پر زور برقرار رکھنا ہے ۔

اور پینٹاگان کو امید ہے کہ آسٹن کا دورہ دونوں ممالک کو پچھلے دفاعی معاہدوں کی بنیاد پر تعلقات کو فروغ دینے کے قابل بنائے گا۔ان میں 2014 کا دفاعی تعاون کا معاہدہ اور منیلا کو اپنی افواج کو جدید بنانے اور انسداد دہشت گردی کے جاری مشن کی مدد بھی شامل ہے تاکہ وہ بیجنگ کا بہتر طور پر مقابلہ کر سکے۔

اہل کار کا کہنا ہے: ’’وزیر دفاع(آسٹن) کھلم کھلا اس بات کا اعادہ کریں گے جس کے بارے میں ہم بالکل واضح رہے ہیں کہ ہمارے معاہدے بحیرہ جنوبی چین میں لاگو ہوتے ہیں اور بحیرہ جنوبی چین میں فلپائنی افواج ، بحری جہازوں یا ہوائی جہازوں پر مسلح حملہ اسی دفاعی معاہدے کے تحت دیکھا جائے گا۔ ‘‘

فلپائن ان چند ممالک میں سے ایک ہے جو ایک نئے امریکی اقدام کے ذریعے اہم بحری معلومات اور انٹیلی جنس حاصل کرتے ہیں۔ اور امریکی حکام بھی منیلا میں خلائی اور سائبر اسپیس کے شعبوں میں تعاون کو وسعت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

(وی او اے نیوز)

XS
SM
MD
LG