افغانستان کے شمالی شہر قندوز میں بین الاقوامی طبی امدادی تنظیم کے اسپتال پر بمباری کے واقعے کی جہاں بڑے پیمانے پر مذمت کی جا رہی ہے وہیں امریکہ نے اس کی مکمل تحقیقات شروع کر رکھی ہیں۔
افغانستان میں تعینات امریکی افواج کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی فورسز کے لڑاکا طیاروں نے جب علاقے میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی تو ہو سکتا ہے اسپتال اس کی زد میں آگیا ہو۔
تنظیم کے مطابق بمباری سے اسپتال میں طبی عملے، بچوں اور مریضوں سمیت 22 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
افغانستان میں اعلیٰ ترین امریکی کمانڈر جنرل جان کیمبل نے صحافیوں کو بتایا کہ اس فضائی کارروائی کے لیے افغان فورسز نے درخواست کی تھی۔
"افغان فورسز نے اس کا مطالبہ کیا تھا کیونکہ وہ براہ راست دہشت گردوں کی زد میں تھے۔"
ان کا کہنا تھا کہ امریکی فورسز قندوز میں افغان فورسز کو مشاورت فراہم کرنے کے لیے موجود ہیں۔ اس سے قبل یہ کہا گیا تھا کہ وہاں موجود امریکی فورسز طالبان کے زد پر تھیں، جو کہ درست خبر نہیں تھی۔
اسپتال کی منتظم امدادی تنظیم "ڈاکٹرز ود آوٹ بارڈرز" نے بمباری کے بعد اپنے عملے کو قندوز سے نکال لیا تھا اور اس نے ایک بیان میں الزام عائد کیا ہے کہ "درحقیقت امریکہ نے وہ بم گرائے۔۔۔امریکی فوج ہی ان اہداف کی ذمہ دار ہے جنہیں وہ نشانہ بناتی ہے۔۔۔اس وحشیانہ حملے کی کوئی وضاحت نہیں ہوسکتی۔"
جنرل جان کیمبل کا کہنا تھا کہ " اگر کوئی غلطی ہوئی تو ہم اس کا اعتراف کریں گے۔ ہمیں انھیں ذمہ دار ٹھہرائیں گے ان کا احتساب کریں اور ہم ایسے اقدام کریں گے جو ایسی غلطیوں کو دوبارہ رونما نہ ہونے کو یقینی بنائیں۔"
تنظیم کے علاوہ طالبان بھی اپنے اپنے بیانات میں کہہ چکے ہیں کہ بمباری کے وقت اسپتال میں کوئی جنگجو موجود نہیں تھا۔
امریکی وزیردفاع ایشٹن کارٹر یہ کہہ چکے ہیں کہ اس واقعے میں امریکی فوج کے اہلکار ملوث نہیں لیکن ان کے بقول اس کی مکمل اور شفاف تحقیقات کی جائیں گی۔