صدر ٹرمپ نے چین سے ہونے والی درآمدات پر 60 ارب ڈالر کے محصولات عائد کرتے ہوئے چین سے کہا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنے 375 ارب ڈالر کے تجارتی سرپلس میں کم سے کم 100 ارب ڈالر کی کمی کرے۔ تاہم جواب میں چین نے امریکہ پر الزام لگایا ہے کہ اگر امریکہ ہائی ٹیک اشیاء کی چین کو برآمد پر پابندیاں عائد کرتا رہے گا تو چین کے ساتھ امریکہ کا تجارتی خسارہ کم نہیں ہو گا۔
صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ چین نے امریکی کمپنیوں کو مجبور کیا ہے کہ اگر وہ چین میں کاروبار کرنا چاہتی ہیں تو اپنے دانشورانہ ملکیت کے حقوق چین منتقل کریں۔
تاہم چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چن یِنگ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر امریکہ چین کو وہ اشیاء برآمد کرنے سے انکار کرتا ہے جو چین خریدنے کا خواہش مند ہے تو پھر چین کے تجارتی سرپلس کے بارے میں امریکی تنقید غیر مناسب ہے۔ چین امریکہ سے ہائی ٹیک اشیاء خریدنے کی خواہش رکھتا ہے تاہم امریکہ اس سے کتراتا رہا ہے۔
چینی وزارت خارجہ کی ترجمان کا کہنا تھا، ’’چین امریکہ سے کتنی مقدار میں سویابین خریدے جو ایک بوئنگ جہاز کے برابر ہو؟ اور پھر اگر چین امریکہ سے چند بوئنگ جہاز خرید لیتا ہے تو کیا امریکہ بھی چین سے اتنے ہی C919 جہاز خریدے گا؟‘‘
C919 چین کا خود تیار کردہ مسافر جہاز ہے۔
تجارتی محاذ آزائی کے باوجود چین نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ اس مسئلے کا باوقار حل تلاش کرنے کے لئے چین سے بات چیت پر آمادہ ہو گا جو باہمی احترام کی بنیاد پر ہو۔
گزشتہ سال امریکہ کی چین کے لئے زرعی برآمدات 19.6 ارب ڈالر تھیں جن میں سے صرف سویابین کی برآمدات کی مالیت 12.4 ارب ڈالر تھی۔
امریکہ میں بوئنگ طیارے بنانے والی کمپنی نے گزشتہ سال چین کو 7000 سے زائد بوئنگ طیارے فروخت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا جن کی مالیت 11 کھرب ڈالر ہے۔ بوئنگ کمپنی یہ طیارے اگلے 20 برس کے دوران چین کو فروخت کرنا چاہتی ہے۔
امریکہ کی طرف سے چینی درآمدات پر محصولات عائد کرنے کے جواب میں چینی وزارت تجارت نے پیر کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ چین ایسے یک طرفہ اقدامات کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔
چینی وزارت نے بیان میں مزید کہا، ’’ اگر چین کے جائز حقوق متاثر ہوئے تو وہ خاموش نہیں بیٹھے گا۔ ہمیں اپنے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لئے تمام ضروری اقدامات اُٹھانے ہوں گے۔‘‘
امریکہ کے تجارتی نمائندے رابرٹ لائیٹ ھائیزر کا کہنا ہے کہ امریکہ کی طرف سے چینی درآمدات پر عائد ہونے والے محصولات سے چین کا اعلیٰ ٹکنالوجی کا حامل شعبہ زیادہ متاثر ہو گا اور امریکہ میں چین کی سرمایہ کاری پر بھی منفی اثر پڑے گا۔ اس کے علاوہ چین کی امریکہ کو سلے سلائے کپڑوں کی برآمد بھی متاثر ہو سکتی ہے۔
بیجنگ میں قائم تھنک ٹینک مرکز برائے چین اور عالمگیریت کے سینئر فیلو ہی وائی وین کا کہنا ہے کہ فی الحال امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی مذاکرات کا کوئی امکان نہیں کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ چینی درآمدات پر محصولات عائد کرتے ہوئے چین پر دباؤ ڈالنے کی پالیسی جاری رکھنے پر مصر دکھائی دیتی ہے۔
خدشہ ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی محاذ آرائی میں شدت کے ساتھ اضافہ ہو جائے جس کے اثرات دیگر ملکوں پر بھی پڑ سکتے ہیں۔