صدر براک اوباما اور اُن کے چینی ہم منصب شی جنپنگ کے مابین ہفتے کے روز تین گھنٹوں سے زائد دیر تک جاری رہنے والی بات چیت کے دوران امریکہ اور چین نے سکیورٹی، تجارت اور صحت کے وسیع الجہت امور پر مزید قربت سے مل کر کام کرنے کا عہد کیا۔
تاہم، ملاقات کے آغاز سے قبل، اوباما کی آمد کے موقع پر وائٹ ہاؤس عملے، امریکی اخباری نمائندوں اور چینی سکیورٹی اہل کاروں کے درمیان غیر معمولی نوعیت کی بحث جاری رہی۔
جب ’ایئر فورس ون‘ ہوانڈو میں اترا، چینی اہل کاروں نے وائٹ ہاؤس کے عملے پر جملے کسے، جو صدر کے ہمراہ سفر کرنے والے امریکی صحافیوں کو ٹارمک پر رہنے کی اجازت دینے سے متعلق معاملہ تھا۔ ایک اہل کار قومی سلامتی کی مشیر سوزن رائس سے سختی سے پیش آئے۔ بعدازاں، ’ویسٹ لیک اسٹیٹ ہاؤس‘ پر، جہاں دونوں سربراہان کی ملاقات ہونی تھی، عملے کے کتنے افراد اور اخباری نمائندوں کو اجازت دینے کے معاملے پر چینی اور امریکی حکام کے درمیان چینی زبان میں تیز لے دے ہوئی۔ ایک مرحلے پر، امریکی اخباری نمائندوں نے چینی سکیورٹی اہل کاروں کے سلوک کی شکایت کی۔ بہرحال، اوباما اور شی نے ساڑھے تین گھنٹے تک ملاقات کی جس کے بعد اُنھوں نے شام گئے باغ میں چہل قدمی کی۔
وائٹ ہاؤس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ تیسری دنیا کے ساجھے دار کے طور پر امن کار استعداد تشکیل دینے کے بارے میں سربراہان نے مشترکہ کام کرنے پر اتفاق کیا، جس میں امریکہ انجنیئرنگ اور فوجی لاجسٹک حمایت فراہم کرے گا، جو کام ایسے دستوں کی فوری تعیناتی کو یقینی بنائے گا۔ چین نے کہا ہے کہ 60 دنوں کے اندر وہ 8000 ارکان پر مشتمل امن کار فورس کھڑی کرنے کے لیے کچھ دستے تیار کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
دونوں صدور نے مشتبہ غیر ملکی دہشت گردوں سے متعلق اطلاعات کے تبادلے کے معاملے کو بہتر بنانے کا عہد بھی کیا، جس میں سوانحی نوعیت کی اطلاعات اور جائزہ رپورٹیں شامل ہوں گی۔ مزید برآں، بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں فریق نے سائبر سکیورٹی سے متعلق اقدامات کے سلسلے میں عمل درآمد کی خواہش کا اعادہ کیا جس کا مقصد ’’بددیانتی پر مبنی‘‘ سائبر ہیکنگ اور حقوق ِدانش کی چوری کو بند کرنا ہے۔
دونوں رہنماؤں نے ’’باہمی مفاد کے شعبوں میں‘‘ فوجی تعاون بڑھانے پر بھی گفتگو کی، جس میں، بیان کے مطابق، وہ اقدامات شامل ہوں گے جن میں ’’باہمی اعتماد کو گہرا کرنے، تحفظ سے متعلق کارگزاری میں بہتری لانے اور ہماری مسلح افواج کو درپیش آنے والے خدشات میں کمی لانا ہے‘‘۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملک اعتماد سازی کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کا سلسلہ تشکیل دینے اور ان پر عمل درآمد جاری رکھنے پر متفق ہوئے، جن پر سنہ 2014 میں دونوں ملک اتفاق کر چکے ہیں۔