رسائی کے لنکس

روس کی جی 20 میں شرکت کے معاملے پر امریکہ، کیینڈا اور برطانیہ کا اجلاس سے واک آؤٹ


روس کے وزیر خزانہ، انتون سلوانوف کابینہ کے اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے۔ 26 اپریل 2022ء
روس کے وزیر خزانہ، انتون سلوانوف کابینہ کے اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے۔ 26 اپریل 2022ء

امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ جی ٹونٹی کے وزرائے خزانہ کے اجلاس میں روسی وزیر خزانہ انتون سلوانوف سمیت روسی حکام کو شرکت کی اجازت دینے کے فیصلے کے خلاف بطور احتجاج بدھ کو بیس بڑی معیشتوں کے اس گروپ کے اجلاس سے واک آوٹ کرگئے ۔

امریکہ اور جی ٹونٹی کے دیگر اراکین نے تنظیم کے موجودہ گردشی چیئرمین، انڈونیشیا سے مطالبہ کیا تھا کہ روس کو یوکرین پر حملہ کرنے کی پاداش میں اجلاس میں شرکت سے روکا جائے۔ روس کو اس اجلاس میں شرکت کی اجازت سے یوکرین جنگ کے مسئلے پر تنظیم کے اندر اہم ٹوٹ پھوٹ نمایاں ہوگئی ہے۔

گرچہ یوکرین جی ٹونٹی کا رکن نہیں ہے لیکن اس کے وزیر خارجہ دامیترو کلیبا اور وزیر خزانہ سیرہی مارچینکو کو بھی اجلاس میں مدعو کیا گیا تھا۔ پہلے سیشن سے خطاب میں کلیبا نے اس عزم کا اظہار کیا کہ یوکرین امن مذاکرات کے لیے اپنا علاقہ روس کے حوالے نہیں کرے گا ۔ خطاب کےبعد کلیبا اور مارچینکو بھی واک آوٹ کرگئے۔

روسی وزیر خزانہ سلوانوف نے اپنے خطاب میں جی ٹونٹی ممالک کو خبردار کیا کہ رکن ممالک کے درمیان بات چیت کو سیاسی رنگ دینے سے عالمی معیشت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

جی ٹونٹی میں بڑی تقسیم

امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، جاپان اور کینیڈا جیسے جی ٹونٹی کے بڑے ممالک نے یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت کی ہے اور اس پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں، جب کہ کچھ ملکوں نے ایسا نہیں کیا جن میں چین، انڈونیشیا، بھارت اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔

بدھ کی صبح امریکی وزارت خزانہ کے حکام نے خبررساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ وزیر خزانہ جینٹ یلن جی ٹونٹی اجلاس سے پہلے انڈونیشیا کے وزیر خزانہ سری ملیانی اندراوتی سے بات کی تھی اور انھوں نے یوکرین پر روس کے وحشیانہ حملے کی سختی سے مذمت کی اور اس بات پر زور دیا کہ عالمی معیشت میں روس کے ساتھ اب معمول کے مطابق لین دین نہیں ہوگا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ جینٹ یلن نے زور دیا کہ امریکہ جی ٹونٹی کے پلیٹ فارم پر عالمی معیشت میں روسی حملے کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے انڈونیشیا کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا۔

بدھ کو کینیڈا کی نائب وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کرسٹینا فری لینڈ نے ٹوئٹ کیا کہ واشنگٹن میں اس ہفتے ہونے والا اجلاس عالمی معیشت کی مدد کے لیے ہے اور روس کا یوکرین پر غیر قانونی حملہ عالمی معیشت کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ روس کو اس میں شریک نہیں ہونا چاہیے یا اسے شامل نہ کیا جائے۔

تعاون کی اپیل

جی ٹونٹی1999میں قائم ہوئی لیکن یہ 2008-09کے عالمی معاشی بحران کے دوران عالمی سطح پر ایک قوت بن کر سامنے آئی جب اس نے پالیسی ردعمل کے سلسلے میں رابطے کار ادارے کے طور پر کام کیا، بہت سے ماہرین اقتصادیات عظیم معاشی نقصان سے بچانے کا سہرا اسے دیتے ہیں۔

بدھ کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی منجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے جی ٹونٹی کے اراکین سے بڑے عالمی مسائل سے نمٹنے کے لیے تعاون جاری رکھنے کا مطالبہ کیا اور مشترکہ بھلائی کے عالمی عزائم کو پورا کرنے میں اجتماعی کوششوں کی رفتار کو برقرار رکھنےکے لیے تنظیم کواہم قرار دیا ۔انھوں نے کہا کہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارا ایک دوسرے پر کتنا انحصار ہے اور یہ اتنا واضح ہے کہ باہمی تعاون ضروری ہے جسے جاری رہنا چاہیے۔

مستقبل پر اثرات کا سوال

ماہرین کو تشویش ہے کہ روس کی شرکت پر اختلاف کے بعد کیا جی ٹونٹی کےاراکین نے جن مسائل کو اہم قرار دیا تھا جیسے موسمیاتی تبدیلی اور خوراک کی عالمی قلت پر رہنمائی کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے ؟

سنٹر فار اسٹرٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز میں اقتصادیات کے سینئر نائب صدر میتھیو گڈمین نے وی او اے کو بتایا کہ ہمیں اس طرح کے گروپ کی واقعی ضرورت ہے جو بیٹھے اور عملی حل تلاش کرے، لیکن یہ بہت مشکل ہے ، موجودہ حالات میں یہ کیسے ہوگا؟ ایک بہت بڑا گروپ ہے جوروس کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتا اور ایک دوسرا بڑا گروپ ہے جو روس کے بغیر بات کرنے کوہی تیار نہیں۔ لہذایہ دیکھنا مشکل ہے کہ آپ اس سے کیسے نکلتے ہیں۔

گڈمین ،جنھوں نے اوباما انتظامیہ کے دور میں جی ٹونٹی سربراہی اجلاسوں کے انعقاد میں مدد کی تھی، نے کہا کہ یہ ممکن ہے کچھ مشترکہ بنیادی مسائل پر تمام جی ٹونٹی اراکین اپنی اندرونی تقسیم کے باوجود متفق ہوجائیں لیکن اس کی زیادہ امید نہیں ہے۔

شکوک و شبہات میں ہونے والا اجلاس

جی ٹونٹی کے سالانہ اجلاس کے برعکس، جس میں عام طور پر سربراہان مملکت شرکت کرتے ہیں، بدھ کو واشنگٹن میں ہونے والے اجلاس میں رکن ممالک کے وزرائے خزانہ اور مرکزی بینک کے گورنر شریک ہوئے۔

اس سال کا سربراہی اجلاس انڈونیشیا کی صدارت میں نومبر میں بالی میں ہوگا۔ انڈونیشیا کے صدر جوکوویدڈو نے اشارہ دیا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا بالی اجلاس میں خیر مقدم کیا جائے گا ، جس سے احتجاج بڑھے گا، گزشتہ ماہ آسٹریلیاکے وزیر اعظم اسکاٹ موریسن نے کہا تھا کہ ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ایک میز پر بیٹھنے کا ، جس پر امریکہ پہلے ہی یوکرین میں جنگی جرائم کی بنیاد پر اپنی پوزیشن لے چکا ہے، میرے لیے بہت مشکل ہوگا۔

بائیڈن انتظامیہ نے بالی سربراہی اجلاس کے لیے صدر کے منصوبے کے بارے میں کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا ہے۔ سات اپریل کو ایک پریس کانفرنس میں پریس سیکریٹری جان ساکی نے کہا کہ ابھی اجلاس میں سات ماہ ہیں۔

اخراج کی تاریخ

اگر روس کو جی ٹونٹی سے نکال دیا گیا،جس بات کا امکان کم ہے، تو یہ پہلا واقعہ نہیں ہوگا جب ملک کو کسی باوقار بین الاقوامی تنطیم سے نکالا گیا ہو۔ دنیا کی اس وقت کی سب سے بڑی تنظیم جی سیون سے روس کی رکنیت دو ہزار چودہ میں یوکرین کے جزیرہ نما کریمیا پر حملےاور اس پر قبضے کے بعد معطل ہوچکی ہے۔

روس نے 2017میں باضابطہ طور پر اس تنظیم کو چھوڑ دیا تھا اور اس میں دوبارہ شامل ہونےمیں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی تھی، یہاں تک کہ اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اطالوی وزیر اعظم گیوسپ کونٹ نے دو ہزار اٹھارہ میں اس کی بحالی کا مطالبہ کیا۔

XS
SM
MD
LG