واشنگٹن —
امریکی محکمہٴخزانہ نےمتنبہ کیا ہے کہ ملک کی مالی ذمہ داریاں نبھانے اور ملک کو ڈفالٹ سے بچانے کے لیے اگر کانگریس نے آئندہ دِنوں ملک کے قرضہ جات کی حد میں توسیع کی اجازت نہیں دی، تو دنیا بھر میں اِس کے ’تباہ کُن‘ معاشی نتائج مرتب ہوں گے۔
ایسے میں جب امریکہ 16.7 ٹرلین ڈالر کی قرضے کی حد کی سطح پر کھڑا ہے، محکمہٴخزانہ نے جمعرات کو ایک رپورٹ جاری کرتے ہوئے اِس مسئلےکی نشاندہی کی ہے، جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ملک بر وقت ادائگیاں نہیں کر پائے گا، جس میں قرض کی وہ رقم بھی شامل ہے جو امریکہ نے بیرون ملک سےادھار لے رکھی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر ہم بر وقت ادائگی نہیں کر پائے، تو یہ ایک غیرمعمولی نوعیت کا معاملہ ہوگا، جِس کے باعث مالی منڈی میں قرضہ جات منجمد ہو کر رہ جائیں گے، ڈالر کی قدر گِر سکتی ہے، امریکہ کے سود کی شرح تیزی سے بڑھ جائے گی، دنیا بھر میں منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اور، ہو سکتا ہے کہ کوئی مالی بحران کی ایسی کیفیت پیدا ہو جو 2008ء یا اُس سے بھی بدتر نوعیت کی صورتِ حال اختیار کرلے۔
حکومتی اخراجات کے معاملے پر صدر براک اوباما جِن کاتعلق ڈیموکریٹ پارٹی سے ہے اور کانگریس میں اُن کے ری پبلیکن مخالفین کے مابین عدم اتفاق رائے کے باعث، ملک پہلے ہی شٹ ڈاؤن سے دوچار ہے، جس کا آج تیسرا دِن ہے۔
مسٹر اوباما نے کہا ہے کہ قومی قرضہ جات کے نئے بحران سے نمٹنے کے لیے17اکتوبر سے پہلے کانگریس کو فوری اقدام کرنا ہوگا۔
گذشتہ ایک صدی کے دوران، امریکہ کےقومی قرضہ جات کی حد میں 100سے زیادہ مرتبہ توسیع کی جا چکی ہے، کبھی عام رواجی طریقے سے، کبھی کافی عرصے تک جاری رہنے والے مباحثے کے نتیجے میں، جب کہ وائٹ ہاؤس میں موجود انتظامیہ کی مخالف سیاسی جماعت عمومی طور پر حکومتی سربراہ پر بے تحاشہ اخراجات کا الزام لگاتی ہے۔
ایسے میں جب امریکہ 16.7 ٹرلین ڈالر کی قرضے کی حد کی سطح پر کھڑا ہے، محکمہٴخزانہ نے جمعرات کو ایک رپورٹ جاری کرتے ہوئے اِس مسئلےکی نشاندہی کی ہے، جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ملک بر وقت ادائگیاں نہیں کر پائے گا، جس میں قرض کی وہ رقم بھی شامل ہے جو امریکہ نے بیرون ملک سےادھار لے رکھی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر ہم بر وقت ادائگی نہیں کر پائے، تو یہ ایک غیرمعمولی نوعیت کا معاملہ ہوگا، جِس کے باعث مالی منڈی میں قرضہ جات منجمد ہو کر رہ جائیں گے، ڈالر کی قدر گِر سکتی ہے، امریکہ کے سود کی شرح تیزی سے بڑھ جائے گی، دنیا بھر میں منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اور، ہو سکتا ہے کہ کوئی مالی بحران کی ایسی کیفیت پیدا ہو جو 2008ء یا اُس سے بھی بدتر نوعیت کی صورتِ حال اختیار کرلے۔
حکومتی اخراجات کے معاملے پر صدر براک اوباما جِن کاتعلق ڈیموکریٹ پارٹی سے ہے اور کانگریس میں اُن کے ری پبلیکن مخالفین کے مابین عدم اتفاق رائے کے باعث، ملک پہلے ہی شٹ ڈاؤن سے دوچار ہے، جس کا آج تیسرا دِن ہے۔
مسٹر اوباما نے کہا ہے کہ قومی قرضہ جات کے نئے بحران سے نمٹنے کے لیے17اکتوبر سے پہلے کانگریس کو فوری اقدام کرنا ہوگا۔
گذشتہ ایک صدی کے دوران، امریکہ کےقومی قرضہ جات کی حد میں 100سے زیادہ مرتبہ توسیع کی جا چکی ہے، کبھی عام رواجی طریقے سے، کبھی کافی عرصے تک جاری رہنے والے مباحثے کے نتیجے میں، جب کہ وائٹ ہاؤس میں موجود انتظامیہ کی مخالف سیاسی جماعت عمومی طور پر حکومتی سربراہ پر بے تحاشہ اخراجات کا الزام لگاتی ہے۔