رسائی کے لنکس

اردن حملوں کا جواب، امریکہ کی شام اور عراق میں 85 اہداف پر بمباری


صدر بائیڈن اور خاتون اول جل بائیڈن ڈیلاویئر کے ایئرفورس بیس پر ان تین امریکی فوجیوں کی میتوں کی آمد کے موقع پر خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں جو اردن میں ایک ڈورن حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ جس کے جواب میں امریکہ نے شام اور عراق میں عسکری گروپس کے خلاف حملے شروع کر دیے ہیں۔ 2 فروری 2024
صدر بائیڈن اور خاتون اول جل بائیڈن ڈیلاویئر کے ایئرفورس بیس پر ان تین امریکی فوجیوں کی میتوں کی آمد کے موقع پر خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں جو اردن میں ایک ڈورن حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ جس کے جواب میں امریکہ نے شام اور عراق میں عسکری گروپس کے خلاف حملے شروع کر دیے ہیں۔ 2 فروری 2024

امریکی فورسز نے جمعے کو عراق اور شام میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کے زیر استعمال درجنوں ٹھکانوں پر طیاروں اور ڈرونز سے حملے کیے ہیں۔

امریکی سینٹرل کمانڈ فورسز (سینٹکام) نے ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں بتایا ہے کہ فورسز نے عراق اور شام کے اندر پاسداران انقلاب قدس فورس اور اس کے اتحادی ملیشیا گروپوں کے خلاف فضائی حملے کیے ہیں۔ امریکی فورسز نے پچاسی سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں کے لیے کئی ایرکرافٹ استعمال ہوئے جن میں دور تک مار کرنے والے جنگی طیاروں نے امریکہ سے بھی اڑان بھری۔

سینٹکام کے مطابق جن جگہوں کو نشانہ بنایا گیا ان میں ملیشیا گروپوں اور ان کے حامی پاسدان انقلاب کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹرز، انٹیلیجنس سنٹرز، راکٹس، میزائل، بنا پائلٹ کے اڑنے والے فضائی آلات کے سٹوریجز اور ملیشیا گروپوں کے لیے اسلحے کی فراہمی میں استعمال ہونے والی تنصیبات شامل ہیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس نے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ حملے اردن میں ایک امریکی فوجی تنصیب ’ٹاور-22‘ پر ایران کے حمایت یافتہ ایک عسکری گروپ کے ڈرون حملے کے جواب میں کیے گئے جس میں تین امریکی فوجی ہلاک اور 40 کے لگ بھگ زخمی ہو گئے تھے۔

صدر جو بائیڈن نے ایک بیان میں واضح کیا ہےکہ آنے والے دنوں میں مزید اور بھی عمل میں آئے گا۔ انہوں نے کہا،"ہمارا جواب آج شروع ہواہے۔ یہ ہمارے منتخب کردہ اوقات اور مقامات پر جاری رہے گا۔"

بائیڈن نے انتباہ کرتے ہوئے کہا،"وہ تمام لوگ جو ہمیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، یہ جان لیں: اگر آپ کسی امریکی کو نقصان پہنچاتے ہیں، تو ہم جواب دیں گے۔"

صدر بائیڈن اور دیگر اعلیٰ امریکی رہنما کئی دنوں سے کہہ رہے تھے کہ کوئی بھی امریکی ردعمل صرف ایک حملہ نہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ایک "سلسلے وار جواب" ہوگا۔

قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ اہداف کو احتیاط سے منتخب کیا گیا تاکہ شہری ہلاکتوں سے بچا جا سکے اور واضح، ناقابل تردید شواہد کی بنیاد پر ان کا تعلق خطے میں امریکی اہلکاروں پر حملوں سے تھا۔ انہوں نے یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ وہ شواہد کیا تھے ا۔

صدر جو بائیڈن اوروزیر دفاع سمیت ، اعلیٰ امریکی حکام کئی دن سے یہ انتباہ کر رہے تھے کہ امریکہ ملیشیاؤں کے خلاف جوابی کارروائی کرے گا اور انہوں نے یہ واضح کر دیا تھا کہ یہ صرف ایک حملہ نہیں ہو گا، بلکہ عرصے تک جاری رہنے والی سلسلے وار کارروائی ہو گی۔

اس سے قبل شام اور عراق میں عسکری گروپوں پر ہونے والے ان حملوں کے بارے میں عہدے داروں نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کیونکہ انہیں اس پر بات کرنے کی اجازت نہیں۔

عہدے داروں کا کہنا تھا کہ ان حملوں میں پائلٹ بردار اور بغیر پائلٹ کے پرواز کرنے والے طیاروں نے حصہ لیا اور اس ابتدائی کارروائی میں عسکری گروپوں کے کمانڈ اینڈ کنٹرول ہیڈکوارٹرز، گولہ بارود کے ذخائر اور دیگر تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔

یہ حملے ڈیلاویئر میں ایئرفورس بیس ڈوور پر اردن کے ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے تین امریکی فوجیوں کی میتیں وطن واپس پہنچنے کے چند گھنٹوں کے بعد کیے گئے۔

فوجیوں کی باقیات کی آمد کے موقع پر صدر بائیڈن، اعلیٰ عہدے دار اور غمزدہ خاندان بھی فوجی ایئرپورٹ پر موجود تھے۔

یہ واضح نہیں ہے کہ ان حملوں کے بعد کیا اقدامات کیے جائیں گے، کیونکہ کئی دنوں سے دیے جانے والےامریکی انتباہات سے ہو سکتا ہے کہ عسکری گروپوں کے ارکان منتشر ہو کر چھپ گئے ہوں، جس سے امریکی فورسز کے لیے انہیں ڈھونڈ کر نشانہ بنانا مزید مشکل ہوسکتا ہے۔

لیکن یہ واضح ہے کہ ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں میں سے ایک کتائب حزب اللہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے باوجود کہ وہ امریکی فوجیوں پر حملے معطل کر رہے ہیں، امریکی منصوبوں پر کوئی اثر نہیں پڑا۔

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے جمعرات کو نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے پچھلے سال اکتوبر کے وسط میں عراق میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کتائب حزب اللہ کی طرف سے جاری کردہ اس بیان کو بھی بظاہر مسترد کر دیا تھاکہ وہ امریکہ کے خلاف فوجی کارروائیاں معطل کر رہی ہے۔

ایران پہلے ہی یہ کہہ چکا ہے کہ اردن کے حملے میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا"ہم ہمیشہ یہ سنتے ہیں کہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں، لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کرتے ہیں،" انہوں نے کہا۔ " سب کچھ عمل میں ہی ہے۔"

آسٹن نے یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ اردن میں مہلک حملے کے بعد، اس طرح کے gestures بہت کم اور بہت تاخیر سے سامنے ائے ہیں۔

انہوں نے کہا، "ہم ان لوگوں کو جوابدہ ٹھہرانا چاہتے ہیں جو اس کے ذمہ دار ہیں۔" "اور ہم اس بات کو بھی یقینی بنائیں گے کہ ہم پیش رفت کے ساتھ ساتھ انہیں ان صلاحیتوں سے محروم کرتے رہیں۔"

(اس خبر کے لیے معلومات اے پی سے لی گئیں ہیں)

فورم

XS
SM
MD
LG