امریکہ نے کہا ہے کہ وہ جوہری تجارت سے متعلق عالمی قوانین سے بھارت کو مستثنیٰ قرار دیے جانے کی حمایت کرے گا۔
واضح رہے کہ جوہری تجارت میں شریک ممالک کی عالمی تنظیم 'نیوکلیئر سپلائرز گروپ' نے گزشتہ ہفتے حساس جوہری ٹیکنالوجی کی منتقلی سے متعلق قواعد مزید سخت کردیے تھے۔
تاہم بھارت میں امریکہ کے سبکدوش ہونے والے سفیر ٹموتھی روئمر نے کہا ہے کہ ان کا ملک بھارت کو ان قواعد سے مستثنیٰ قرار دیے جانے کی ’شدید اور والہانہ انداز سے‘ سے حمایت کرتا ہے۔
امریکی سفیر نے یہ بات جمعرات کے روز بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں اپنے اعزاز میں ہونے والی ایک الوداعی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
امریکہ نے 2008ء میں بھی جوہری مواد کی تجارت سے متعلق قوانین سے بھارت کو استثنیٰ دلوانے کےلیے گروپ کے رکن ممالک سے کامیاب مذاکرات کیے تھے جس کے نتیجے میں قوانین کو نرم کرتے ہوئے بھارت کو جوہری ٹیکنالوجی اور ایندھن کی خریداری کی اجازت دیدی گئی تھی۔
واضح رہے کہ بھارت نے جوہری توانائی کے عدم پھیلاؤکے معاہدہ (این پی ٹی) پر دستخط نہیں کیے ہیں اور این ایس جی کے قوانین کی رو سے یہ ضروری تھا کہ جوہری مواد کی خریداری کی اجازت حاصل کرنے کےلیے ضروری تھا کہ بھارت کو عالمی معائنہ کاروں پر اپنی جوہری تنصیبات کے دروازے کھولے۔
بھارت کا شمار دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی معیشتوں میں ہوتا ہے اور اپنے حجم کے اعتبار سے بھارتی معیشت ایشیاء کی تیسری بڑی معیشت ہے تاہم اس کے باوجود اسے بجلی کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق بھارت کی 40 فی صد آبادی (لگ بھگ 50 کروڑ افراد) اب بھی بجلی سے محروم ہیں۔
بھارتی حکومت بجلی کی کمی اور طلب و رسد کے فرق پر قابو پانے کےلیے جوہری طریقے سے بجلی کے حصول کے پروگرام کو وسعت دے رہی ہے۔
جمعرات کو ہونے والی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امریکی سفیر نے نئی دہلی اور واشنگٹن کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کو بھی سراہا۔ روئمر کا کہنا تھا کہ انسدادِ دہشتگردی اور انسانی امداد سمیت کئی شعبوں میں موجود دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئی ہے۔