رسائی کے لنکس

امریکی افواج کے انخلاء پر پاکستان میں ردعمل


امریکی افواج کے انخلاء پر پاکستان میں ردعمل
امریکی افواج کے انخلاء پر پاکستان میں ردعمل

پارلیمنٹ میں قبائلی علاقے خیبر ایجنسی کی نمائندگی کرنے والے رکن قومی اسمبلی حمید اللہ جان آفریدی نے کہا کہ اس اعلان سے یہ لگتا ہے کہ امریکہ نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے کہ صرف آپریشنز سے مسائل حل نہیں ہوتے ہیں ۔ ”آخر کار اُن کو یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ افواج کا نکالنا پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک کے حق کی بات ہے۔ اب اکیسویں صدی ہے اور ان طریقوں سے مسائل حل نہیں ہوتے ہیں ۔“

صدر براک اباما کی طرف سے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے منصوبے پر پاکستان کا موقف بیان کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا ہے کہ اُن کا ملک ہر اس فیصلے کی حمایت کرتا ہے جس میں افغانوں کی رضامندی شامل ہو اور جس کا مقصد افغانستان میں امن ومفاہمت یا پھر وہاں پرغیر ملکی افواج کی تعیناتی سے ہو ۔

پاکستانی پارلیمان میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کرنے والے اراکین کی اکثریت نے بھی صدر اوباما کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ایک مثبت پیش رفت قرار دیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حکمران پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی یاسمین رحمن نے کہا کہ اس اعلان سے یہ مثبت پیغام دیا گیا ہے کہ امریکی فورسز اور حکومت ٹھوس جواز کے بغیر کسی ملک کو دباوٴ میں نہیں رکھنا چاہتی ۔ ”اس خطے کی حکومتوں میں نہیں بلکہ عوام میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ یہاں غیر ضروری امریکی مداخلت ہوتی ہے اور فوجیوں کے انخلاء سے اس تاثر کو زائل کرنے میں بھی امریکہ کو مدد ملے گی ۔“

اُنھوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کی حکومتیں اور پارلیمان اس قابل ہیں کہ وہ اپنے معاملا ت خودسلجھا سکیں ۔ ” بے شک (پاکستان اور افغانستان کو) سلامتی کے خطرات درپیش ہیں اور ان ملکوں کو دہشت گردی کا سامنا ہے ۔ ہم امریکہ سے یہ اُمید کرتے ہیں کہ وہ اس سلسلے ہمیں تکنیکی مدد دے اور انٹیلی معلومات کا تبادلہ کرے ۔ لیکن اگر اُن کی فوجیں افغانستان میں موجود ہوں تو اُس کا بہت اثر پاکستان پر پڑتا ہے اور پاکستانی عوام اُسے اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔“

مسلم لیگ (ن) کے رکن پارلیمنٹ عبدالقادر بلوچ نے بھی صدر اوباما کے اعلان کو خوش آئند اور مثبت پیش رفت قرار دیا ہے ۔ ”پاکستان کو یہ پریشانی نہیں ہونی چاہیئے کہ افغانستا ن میں کیا ہورہا ہے۔ یہ کہنا کہ وہاں پر ہماری مرضی کی باتیں ہوں ، ہماری مرضی کی چیز چلیں یہ ایک غلط طریقہ ہے اس پر ہماری جماعت یقین نہیں رکھتی ۔“

پارلیمنٹ میں قبائلی علاقے خیبر ایجنسی کی نمائندگی کرنے والے رکن قومی اسمبلی حمید اللہ جان آفریدی نے کہا کہ اس اعلان سے یہ لگتا ہے کہ امریکہ نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے کہ صرف آپریشنز سے مسائل حل نہیں ہوتے ہیں ۔ ”آخر کار اُن کو یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ افواج کا نکالنا پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک کے حق کی بات ہے۔ اب اکیسویں صدی ہے اور ان طریقوں سے مسائل حل نہیں ہوتے ہیں ۔“

عوامی نیشنل پارٹی کی رکن پارلیمنٹ بشریٰ گوہر نے کہا کہ امریکی صدر کی طرف سے افواج کے انخلاء کے اعلان کے بعداب پاکستان اور دیگر علاقائی ممالک کو مل کر خطے کے مسائل کو حل نکالنا ہوگا۔ ”ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ قبائلی علاقوں سے (دہشت گردوں کا) صفایا کریں اور فاٹا میں تربیتی مراکز اور دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کریں ۔“

مسلم لیگ ق کے سینیٹر ایس ایم ظفر نے کہا کہ افغانستان سے انخلاء کے اعلان سے اُن تجزیوں کی تصدیق ہوتی ہے جن میں کہا گیا تھا کہ امریکہ کا افغانستا ن سے نکلنے کا وقت قریب آ گیا ہے۔ ”اب وہ یہ سمجھ گئے ہیں کہ افغانستان پر قبضہ نہیں رکھا جا سکتا لہذا وہ یہاں اپنی فورسز کو رکھنے میں ناکام ہو چکے ہیں ۔ امریکہ نے افغانستان سے جانا طے کر لیا ہے لیکن یہ جانا اتنی تیز ی سے نہیں ہوگا جتنا ہمارا اندازہ ہے۔“

سینیٹر ایس ایم ظفر نے کہا کہ بظاہر یہ لگتا ہے کہ دس ہزار فوجیوں کے انخلاء کے بعد امریکہ صورت حال کا پھر جائزہ لے گا۔ ”معلوم یہ ہوتا ہے کہ اُنھوں نے ابھی (انخلاء کا) مکمل منصوبہ نہیں بنایا ہے۔“

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اُمور خارجہ کی رکن پلوشہ بہرام نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اعلان کے مطابق اگر آئندہ سال کے اختتام تک افغانستان سے 33ہزار فوجیوں کا انخلاء مکمل ہوتا ہے تو یہ ایک مثبت پیش رفت ہوگی ۔ ”دیکھنا یہ ہے ان افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان کی مقامی سیکیورٹی فورسز سلامتی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی کتنی صلاحیت رکھتی ہیں۔ انخلاء سے ایک مثبت پیغام جاتا ہے اور (طالبان) سے بات چیت شروع کرنا بھی افغانیوں کے لیے مثبت پیش رفت ہے لیکن سرحد کے اس پار ہمارے خدشات یہ ہیں کہ انخلا کے اثرات سے پاکستان کو محفوظ رکھنے کے لیے امریکہ کیا کرے گا کیوں کہ ہم پہلے ہی مشکل صورت حال سے دوچار ہیں ۔“

جماعت اسلامی کے سینیٹر پروفیسر ابراھیم نے بھی امریکی صدر کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ”دس ہزار فوجیوں کا عدد اگرچہ کم ہے لیکن اُنھوں نے افغانستان میں جن کامیابیوں کا ذکر کیا ہے ممکن ہے کہ وہ انخلاء کے اس عمل کو تیز کر دیں۔ یہ امریکہ کے لیے بھی بہتر ہوگا ۔ پاکستان کی حکومت سے میری گزارش ہوگی کہ افغانستا ن کے اندر اُس تاریخ کو نہ دہرایا جائے جس کا سامنا (سابق سویت یونین) کے انخلاء کے بعد کرنا پڑا تھا۔“

سینیٹر پروفیسر ابراہیم نے کہ افغانستا ن میں قیام امن کے لیے افغانوں کے تمام گروہوں کے درمیان مذاکرات ہونے چاہیئے ۔”طالبان، حامد کرزئی ، حکمت یار، ان سب کو آپس میں بیٹھانے کی ضرورت ہے ۔ افغانستان میں امن کے ایک نظام کے قیام کے لیے افغانوں کو اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ پاکستان کے لیے بھی بہترہوگا اور امریکہ و افغانستا ن کے لیے بھی۔“

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG