لڑائی کا آغاز علی الصبح ہوا اور یہ پورے دن جاری رہی۔ باغیوں کو ابتدا میں اس لحاظ سے برتری حاصل تھی کہ انھوں نے افغانستان کے دارالحکومت میں اونچے مقامات پر قبضہ جما لیا تھا۔ وہ خالی عمارتوں سے اپنے نشانوں پر گولیاں برسا سکتے تھے ۔
طالبان نے ان حملوں کی ذمہ داری کا دعویٰ کیا۔ لیکن امریکی عہدے داروں نے ایک اور دہشت گرد گروپ کو ذمہ دار ٹھہرایا اور وہ کہتےہیں کہ وزیرِ دفاع لیون پنیٹا نے شروع ہی میں جس خیال کا اظہار کیا تھا وہی اب بھی صحیح ہے ۔ انھوں نے کہا تھا’’انٹیلی جنس سے ظاہر ہوا ہے کہ جو حملے کیے گئے ان کے پیچھے حقانی گروپ کے لوگوں کا ہاتھ تھا۔‘‘
ریٹائرڈ امریکی سفارتکار اور جنوبی ایشیا کے امور کے ماہر مائیک مالینوسکی کہتےہیں کہ سرکاری عمارتوں اور نیٹو کے اڈوں پر کیے جانے والے حملے اس لحاظ سے قابلِ ذکر تھے کہ وہ بڑے پیمانے پر کیے گئے اور ان کی منصوبہ بندی خوب سوچ سمجھ کر کی گئی تھی۔
وہ کہتے ہیں ’’منصوبہ بندی کا کام بہت پہلے سے کیا گیا تھا ۔ انھوں نے علاقے کی خوب چھان بین کی تھی اور پورے علاقے کے نقشے بنا لیے تھے ۔ لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان میں کابل کے قلب میں حملہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔‘‘
حالیہ برسوں میں بدنامِ زمانہ حقانی نیٹ ورک اس لیے بھی مشہور ہوا ہے کہ امریکہ اور نیٹو کے بہت سے سپاہی اس کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ہیں۔ امریکہ میں افغانستان کے سابق سفیر سید جواد کہتے ہیں’’یہ یقیناً سب سے زیادہ خونی گروپ ہے ۔ افغانستان سے باہر انہیں بہت زیادہ حمایت حاصل ہے ۔ نظریاتی طور پر وہ کہیں زیادہ کٹر ہیں۔‘‘
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ نظریے کے زور پر، حقانی نیٹ ورک کے لیے خود کش بمبار اور غیر ملکی جنگجو بھرتی کرنا ممکن ہو جاتا ہے جو ایسے حملے کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں جن میں ان کی موت یا ان کا پکڑا جانا یقینی ہوتا ہے ۔
اس گروپ کے بانی جلال الدین حقانی ہیں جو سوویت فوجوں کے خلاف لڑنے والی فوج کے کمانڈر تھے ۔ ان کا بیٹا ، سراج حقانی اس گروپ کا آپریشنل کمانڈر ہے ۔
سخت لڑائی کے باوجود، ان حملوں میں نسبتاً بہت کم سویلین ہلاک ہو ئے، اور اس چیز پر افغان سیکورٹی فورسز کی تعریف ہو رہی ہے ، سابق سفیر جواد کہتےہیں’’میرا خیال ہے کہ انھوں نے بہت اچھی طرح مقابلہ کیا۔ سچی بات یہ ہے کہ جس طرح ہماری ابتدا ہوئی تھی، اس کو دیکھتے ہوئے، ان کی بہادری، اور ان کی پیشہ ورانہ مہارت بے مثال تھی ۔‘‘
امریکی عہدے دار کہتے ہیں کہ جنگی نقطۂ نظر سے باغیوں کو کچھ حاصل نہیں ہوا اور وہ کسی علاقے پر قبضہ نہیں کر سکے۔
ان حملوں سے یہ اشارہ ضرور ملا کہ طالبان کے موسمِ بہار کے حملے کا آغاز ہو گیا ہے اور مزید خود کش حملے متوقع ہیں۔