رسائی کے لنکس

امریکہ میں سابقہ افغان حکومت کےنمائندہ سفارتکاروں کا مستقبل کیا ہوگا؟


15 اگست 2021 کو جس دن طالبان باغی افغانستان کے دارالحکومت کابل میں داخل ہوئے، واشنگٹن میں افغان سفارت خانے کے باہر ایک افغان پرچم لہرا رہا ہے۔فوٹو: رائٹرز/ کین سیڈینو
15 اگست 2021 کو جس دن طالبان باغی افغانستان کے دارالحکومت کابل میں داخل ہوئے، واشنگٹن میں افغان سفارت خانے کے باہر ایک افغان پرچم لہرا رہا ہے۔فوٹو: رائٹرز/ کین سیڈینو

افغانستان میں طالبان کے حکومت سنبھالنے کے چھ ماہ بعد امریکہ میں سابقہ حکومت کے سفارتکاروں کو ایک غیر یقینی صورت حال کا سامنا ہے۔ ایک طرف تو واشنگٹن میں افغان سفارت خانے کے مطابق اسٹاف کو اکتوبر سے افغان فنڈز کے منجمد ہونے کے بعد ابھی تک تنخواہیں نہیں ملیں اور دوسری طرف انہیں اپنے اور اپنے خاندانوں کے مستقبل کے بارے میں فکر لاحق ہے۔

دنیا کے دوسرے ممالک میں بھیجےگئے سفارتکاروں کی طرح افغان اسٹاف دارالحکومت واشنگٹن میں واقع سفارت خانے اور نیویار ک اور کیلیوفورنیا میں قونصل خانوں میں اب تک اپنی سفارتی حیثیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

جمعہ کو واشنگٹن میں افغان سفارت خانے پر نائب سفیر کے فرائض انجام دینے والے سابقہ حکومت کے نمائندے عبدالہادی نجرابی نے وائس آف امریکہ کی افغان سروس سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ افغان ایمبیسی اور اسٹاف کےمستقبل کے بارے میں امریکہ کی وزارت خارجہ سے رابطے میں ہیں۔

اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ یکم مارچ کو اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور افغان سفارتکاروں کی میٹنگ میں بات چیت کی جائے گی آیا سفارتخانے کو بند کیا جائے اور افغان شہریوں کے لیے قونصلر خدمات کی فراہمی کے لیے کیا کیا جائے۔

نجرابی نے ان خبروں کی بھی تصدیق کی کہ اس سے قبل محکمہ خارجہ نے سفارت خانے کو بند کرنے کی بات کی تھی۔ لیکن انہوں نے کہا کہ اس وقت تقریباً 85000 افغان باشندے امریکہ کے گذشتہ سال اگست میں افغانستان سے انخلا کے بعد امریکہ میں آبادکاری کے مختلف مراحل سے گزر رہے ہیں اور انہیں پناہ لینے کے سلسلے میں قونصلر و قانونی خدمات کی ضرورت ہے۔

کیا افغانستان میں دہشت گرد تنظیمیں دوبارہ منظم ہو رہی ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:42 0:00

نجرانی نےکہا کہ انہیں بتایا گیا ہے کہ سفارتخانہ بند ہونے کی صورت میں سفارتکاروں کے پاس 30 دن ہوں گے کہ وہ امریکہ میں اپنا سفارتی اسٹیٹس ختم کر دیں۔ اس کے بعد ان کے پاس مزید 20 دن ہوں گے کہ وہ امریکہ میں پناہ گزین ہونے کی درخواست دے سکیں۔

تاہم افغانستان کے نائب سفیر نے بتایا کہ یہ ہر سفارتکار کا اپنا ذاتی فیصلہ ہوگا کہ وہ اپنے مستقبل کےلیے کس راہ کا انتخاب کرتا ہے۔

اس سے قبل اخبار دی نیویارک ٹائمز نے ایک رپورٹ میں کہا کہ سابقہ افغان حکومت کے نمائندہ سفارتکاروں نے اپنا کام جاری رکھا ہوا ہے جس سے ان کی امریکہ میں سفارتی حیثیت بھی برقرار ہے۔

لیکن اخبار کے مطابق اگر سفارتخانے کو بند کیا جاتا ہے اور یہ سفارت کار امریکہ میں قانونی طور پر رہنے کے لیے اپنا اسٹیٹس تبدیل نہیں کرتے تو ان کے لیے بڑے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں ۔ یہا ں تک کہ وہ اسٹیٹ لیس یعنی بے وطن بھی ہو سکتے ہیں۔

نجرابی نے دی ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شاید وہ زیادہ دیر تک اپنا کام جاری نہ رکھ سکیں اور انہیں یہ کام ختم کرنا پڑے۔

مالی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے نجرابی نے کہا کہ اسٹاف کی کریڈٹ ریٹنگ متاثر ہوئی ہے، بچت کوئی نہیں رہی اور سفارتخانہ قونصلر سروسز مہیا کرکے بمشکل دو سے تین ہزار تک ماہانہ کماتاہے اور یہ رقم سفارت خانے کو روشن رکھنے پر صرف ہوجا تی ہے لیکن اس سے اسٹاف کی نتخواہیں ادا نہیں ہو سکتیں، نتیجتاً 65 افراد پر مشتمل سفارتکار اور ان کے خاندان بڑی مشکل میں ہیں۔

خیال رہے کہ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے ابھی تک طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا اور میڈیا رپورٹس کے مطابق حکام نے کہاہے کی اگر طالبان اپنے سفارتی نمائندے بھیجتے بھی ہیں تو محکمہ خارجہ ان کو تسلیم نہیں کرے گا۔

جہاں تک پچھلے دور سے چلتے آرہے سفارت کاروں کے مستقبل کا تعلق ہے تو امریکی وزارت خارجہ میں افغان امور کے ڈائریکٹر مارک ایونز نے کہا ہے کہ امریکہ کی ترجیح یہ ہے کہ ملک میں موجود افغان سفارتکاروں کے لیے کوئی آسان راہ تلاش کی جائے۔

ایونز نے اخبار دی نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ "ظاہر ہے وہ بہت کٹھن حالات میں ہیں اور اس میں ان کی اپنی کوئی غلطی نہیں ہے، اور ہم زیادہ سے زیادہ معاون بننا چاہتےہیں۔"

امریکہ میں افغان پناہ گزینوں کی آبادکاری میں کیا مشکلات ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:44 0:00

جہاں تک سابق حکومت کے نمائندے ہونے کی حیثیت سے افغان طالبان کی عبوری حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا سوال ہے تو امریکہ میں موجود سفارتکاروں نے دنیا کےدوسرے ملکوں میں تعینات ساتھیوں کی طرح ان سے رابطہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔

نجرابی نے وائس آف امریکہ کی افغان سروس کو بتایا کہ افغان عبوری حکومت نے امریکہ میں افغان سفارت خانے سے رابطہ کیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے ایک زوم ملاقات میں شرکت کے لیے کہا۔ لیکن نجرانی کہتے ہیں کہ انہوں نے اس سے انکار کر دیا کیونکہ طالبان کی حکومت کو امریکہ نے ابھی قبول نہیں کیا۔ لہٰذا، وہ افغانستان کی عالمی سطح پر تسلیم کردہ پہلے کی حکومت کی نمائندگی کر رہے ہیں اور افغان شہریوں کے لیے صر ف قونصلر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

نجرابی نے بتایا ہے کہ تقریباً 55 افغان سفارتکاروں اور ان کے خاندانوں کے افراد نے امریکہ میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے مطابق بقیہ افغان سفارتکار اپنے سفارتی اسٹیٹس کو امریکہ میں رہائش کے لیے قانونی اسٹیٹس میں تبدیل کرنے کی درخواستیں دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

دریں اثنا امریکہ کے محکمہ برائے شہریت اور امیگریشن یو ایس سی آئی ایس نے تصدیق کی ہے کہ اب تک تیس سے زائد افغان سفارتی اسٹاف نے امریکہ میں مستقل سکونت اختیار کرنے کے لیے درخواستیں دی ہیں اور یہ کہ مالی طور پر مشکلات میں گھرے اسٹاف کے لیے درخواستوں کی فیس نہ لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG