امریکہ نے پاکستان میں گزشتہ سال مذہبی آزادی کی صورتحال پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اس سے نمٹنے کے لیے بنائی گئی حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ایسے ماحول میں انتہا پسندی اور تشدد کے واقعات کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
یہ بات امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے مذہبی آزادی کی بین الاقوامی رپورٹ برائے سال 2014ء میں کہی گئی۔
اس رپورٹ کا اجراء بدھ کو واشنگٹن میں وزیرخارجہ جان کیری نے کیا جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے متعدد مذہبی تنظیموں کو "انتہا پسند" اور "دہشت گرد" تصور کرتے ہوئے ان کی سرگرمیوں اور ان میں شمولیت پر پابندی تو عائد کی ہے لیکن "بہت سے کالعدم گروپ اب بھی سرگرم ہیں اور ان میں سے بعض قانون سے بچنے کے لیے پابندی کے بعد اپنا نام تبدیل کر کے کام کر رہے ہیں۔"
رپورٹ میں یہ تذکرہ بھی کیا گیا کہ گزشتہ سال حکومتی پالیسیاں مذہبی حقوق کے تحفظ میں بھی کارگر ثابت نہیں ہوئیں جب کہ امتیازی قوانین بشمول توہین مذہب کے قانون کے مبینہ طور پر غلط استعمال سے غیر مسلم اپنے مذہبی عقائد پر آزادانہ عمل کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے رہے۔
تاہم پاکستان میں حکومتی عہدیدار اس سے متفق نہیں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ مشکلات کے باوجود حکومت ایسے اقدام کر رہی ہے جس سے ملک میں بسنے والوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے ایوان بالا "سینیٹ" کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف اور انسانی حقوق کے سربراہ محمد جمیل عباسی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان میں مذہبی اقلیت کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک خطے کے دیگر ممالک سے کہیں بہتر ہے۔
"اگر کوئی واقعات ہو رہے ہیں اور سب کے ساتھ ہو رہے ہیں تو ان (غیر مسلموں) کے ساتھ بھی ہو رہے ہیں۔ بدقسمتی سے چرچ پر حملوں کے واقعات ہوئے جن کی مذمت کی گئی لیکن دوسری طرف مساجد پر بھی ہوئے، بچوں کے اسکولوں پر حملے بھی ہوئے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کسی خاص سوچ کے ساتھ اقلیتوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ ایسی کوئی سوچ نہیں ہے ملک میں کہ غیر مسلموں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں رکھنا۔"
پاکستان نے گزشتہ سال دسمبر میں آرمی پبلک اسکول پشاور پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد ملک سے دہشت گردی و انتہا پسندی کے مکمل خاتمے کے لیے ایک قومی لائحہ عمل مرتب کیا تھا جس کے تحت دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے سہولت کاروں اور ان کے حامیوں کے خلاف بھی کارروائیاں کی جا رہی ہیں جب کہ نفرت انگیز تقاریر کرنے والوں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لایا جا رہا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ قوانین پاکستانی حکومت کو یہ اجازت دیتے ہیں کہ وہ تشدد پر مبنی جرائم، دہشت گرد کارروائیوں، نفرت انگیز سرگرمیوں یا تقایر اور مذہبی منافرت کے اقدام کے خلاف مخصوص عدالتیں بنائے۔
مزید برآں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ پاکستان میں دینی مدرسوں کی ایک قلیل تعداد "دہشت گردی کی حمایت میں پر تشدد انتہا پسندی کے نظریے" کی تعلیم دے رہی ہے۔
پاکستانی حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ دینی مدارس کی اکثریت کا "دہشت گردی اور انتہا پسندی" سے تعلق نہیں ہے اور جہاں ایسے کسی معاملے کا علم ہوتا ہے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جاتی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان نے جہاں دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی شروع کر رکھی ہے وہیں انتہا پسندی کے خاتمے کی کوششیں بھی اگر تسلسل سے جاری رہیں تو اس کے بھی قابل ذکر نتائج برآمد ہوں گے۔
سابق انٹیلی جنس عہدیدار اور سلامتی کے امور کے ماہر اسد منیر کہتے ہیں۔
"انتہا پسندی کے خلاف چونکہ ایک لمبا سلسلہ ہے تو ہو سکتا ہے کہ (اس کے لیے جو دو سال کا ہدف ہے) دو سال میں تو شاید ختم نہیں ہو سکے گا لیکن اگر یہ (حکام) اس طرح چلتے رہے، شہروں میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کرتے رہے جو کہ روز ہو رہے ہیں تو میرا خیال ہے کہ دو سالوں میں اس میں کافی حد تک کامیابی مل سکے گی۔"
پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی یہ کہتی آئی ہیں کہ انتہا پسندانہ رویوں کے خاتمے اور تمام شہریوں کو برابر کے آئینی حقوق دینے کے لیے موجود قوانین پر موثر عملدرآمد ہی سے ملک میں بھائی چارے اور امن کی فضا کو برقرار رکھا جا سکتا ہے جس کے لیے حکومت کو مزید سنجیدہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔