یارک کی ’ایشیا سوسائٹی‘ میں سنیچر کی رات منعقد کردہ اردو مشاعرےمیں امریکیوں اور پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
پاکستان سے اردو ڈکشنری بورڈ کی سربراہ اور معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض کے علاوہ نون میم دانش، شہلا نقوی، افتی نسیم، حمیرہ رحمان اور رئیس وارثی بھی اِس مشاعرےمیں شریک تھے۔
اِس تقریب کی منتظم نیویارک کی ڈاکٹر عذرا رضا کا کہنا تھا کہ وہ مغربی دنیا کے ساتھ ساتھ امریکہ میں رہنے والے پاکستانی بچوں کو مشاعرے کے ماحول سے متعارف کرانا چاہتی تھیں جس میں شاعروں اور سامعین کے درمیان ایک خاص قسم کا تعلق ہوتا ہے۔
نیو یارک میں اِس قسم کی تقریب کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ڈاکٹر رضا نے کہا کہ مشاعرے پاکستان میں زوال پذیر ہیں جب کہ بیرونی دنیا میں زندہ ہیں، کیونکہ، اُن کے بقول، جو اردو آپ کراچی اور لاہور میں نہیں سنیں گے وہ نیو یارک اور شکاگو میں بولی جاتی ہے۔
اردو شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے شاعرہ فہمیدہ ریاض کے بقول پاکستان میں پڑھنے والے لوگ کم ہو تے جارہے ہیں ، لہٰذا جہالت فروغ پا رہی ہے، جِس کا نتیجہ شاعری کے زوال کی صورت میں نظر آتا ہے۔
لیکن شکاگو کے معروف شاعر افتی نسیم اردو کے مستقبل کے بارے میں پُر امید نظر آئے۔ اُنھوں نے کہا کہ عبرانی زبان بھی مردہ سمجھی جاتی تھی مگر اُس کی مقبولیت لوٹ آئی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’اردو اگر اب تک زندہ ہے تو اگلے تین سو سال بھی زندہ رہے گی۔‘
کچھ سامعین نے شکایت کی کہ اِس مشاعرے میں نیو یارک کے مقامی شاعروں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
مشاعرے کے اہتمام میں ایشیا سوسائٹی اور ڈاکٹر عذرا رضا کے علاوہ ڈورس ڈیوک فاؤنڈیشن فار اسلامک آرٹ، پوئیٹس ہاؤس اور سٹی لور نے تعاون کیا تھا۔
تقریب میں انگریزی بولنے والے حاضرین کو اردو زبان اور مشاعرے کی روایت سے متعارف کرانے کے لیے پیمفلٹ تقسیم کیے گئے تھے۔