اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا جمعے کے روز ہنگامی اجلاس منعقد ہو رہا ہے جس میں ایران میں حکومت مخالف اور حکومت کے حامی مظاہروں کو زیر بحث لایا جائے گا، جن میں 22 افراد ہلاک ہوئے ہیں جب کہ 1000سے زائد گرفتار ہو چکے ہیں۔
سلامتی کونسل کا جمعے کے روز ہونے والا یہ اجلاس امریکی سفیر نکی ہیلی کی درخواست پر منعقد ہو رہا ہے۔
روس اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس اقدام پر نکتی چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ احتجاجی مظاہرے داخلی معاملہ ہے، جس سے بین الاقوامی امن اور سلامتی کو خطرہ لاحق نہیں ہے۔
اجلاس میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچیوں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ایرانی حکام کو فوری قدم اٹھانا چاہیئے، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ تمام ایرانی پُرتشدد نتائج کے خوف کے بغیر پُرامن طور پر اظہار رائے کا استعمال کر سکیں۔
اجلاس میں ابتدائی کلمات کے بعد، سفیر ہیلی نے کہا کہ ’’ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا احتجاجی مظاہروں پر توجہ دے’’۔
اُنھوں نے اِن مظاہروں کو ’’بنیادی انسانی حقوق کا برجستہ اظہار‘‘ قرار دیا۔ ساتھ ہی یہ اُن بہادر افراد کی جانب سے ایک طاقت ور اظہار ہے کہ وہ اپنی آمرانہ حکومت سے تنگ آچکے ہیں کہ وہ احتجاج میں جانیں تک قربان کر رہے ہیں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کے کچھ ارکان کے خیال میں انسانی حقوق کا سلامتی کونسل کے معاملات میں کوئی عمل دخل نہیں، جب کہ امریکہ اس سے اتفاق نہیں کرتا۔
ہیلی نے ایرانی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ایرانی عوام کی آواز کو دبانے کی کوشش نہ کرے اور اُن کی انٹرنیٹ تک رسائی بحال کرے۔