اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ کرونا وائرس سے دنیا بھر میں صحتِ عامہ کی سہولیات کے متاثر ہونے سے کم عمر بچوں کی اموات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
گزشتہ 30 برس میں بچوں کی صحت کے سلسلے میں بہت کام کیا گیا ہے اور وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچوں یا نمونیا کی وجہ سے ہونے والی اموات میں کمی ہوئی ہے۔
یونیسیف، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور ورلڈ بینک کے اندازوں کے مطابق گزشتہ سال پانچ برس سے کم عمر بچوں کی سب سے کم اموات دیکھنے میں آئیں۔
گزشتہ برس 52 لاکھ بچوں کی اموات مختلف بیماریوں سے ہوئیں۔ جب کہ 1990 میں یہ تعداد ایک کروڑ 25 لاکھ کے قریب تھی۔
اقوامِ متحدہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عالمی وبا کی وجہ سے بچوں اور ان کی ماؤں کے لیے جاری ان طبی سہولیات کی فراہمی میں رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں۔
یونیسیف کے تحت 77 ممالک میں کیے گئے سروے سے پتا چلا ہے کہ 68 فی صد مقامات پر بچوں کی صحت سے متعلق طبی خدمات یا ان کے حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام متاثر ہوئے ہیں۔
یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہینریٹا فورے کا کہنا تھا کہ ترقی پذیر ممالک میں کرونا وائرس کی وجہ سے بچوں اور ماؤں کے علاج معالجے میں دشواریاں پیدا ہو رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ علاج کی سہولیات کی فراہمی کے لیے سرمائے کی ضرورت ہے، بصورت دیگر پانچ سال سے کم عمر، خاص طور پر نوزائیدہ بچوں کی ایک بڑی تعداد مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو کر موت کے منہ میں جا سکتی ہے۔
جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے ایک طبی ماڈل کے مطابق اگر بچوں تک طبی سہولتیں پہلے کی طرح نہ پہنچیں تو دنیا بھر میں بچوں کی اموات میں چھ ہزار روزانہ کا اضافہ ہو سکتا ہے۔
سروے سے یہ بھی سامنے آیا کہ سات ایسے ممالک ہیں جہاں ہر ایک ہزار بچوں کی پیدائش پر 50 سے زائد بچوں کی اموات ہوئیں۔
یونیسیف کے مطابق افغانستان، جہاں ہر 17 میں سے ایک بچہ پانچ برس کی عمر سے پہلے مر جاتا ہے، وہاں بچوں کے لیے طبی سہولیات کی فراہمی میں واضح کمی آئی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے معیشت اور سوشل افیئرز کے پاپولیشن ڈویژن کے ڈائریکٹر جان ولموتھ کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ سے جہاں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا میں گزشتہ 30 برسوں میں بچوں کی اموات روکنے پر بہت زیادہ کام کیا گیا ہے، وہیں اموات کی شرح میں مزید کمی اور بہتر صحت کی مساوی سہولیوں پر توجہ دینے پر بھی پیش رفت کی ضرورت ہے۔