اقوامِ متحدہ نے افغان پناہ گزینوں اور پاکستان میں اُن کی میزبانی کرنے والے علاقوں کی آبادی کی معاونت جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان گزشتہ تین دہائیوں سے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے، جو ملک میں بنیادی ڈھانچے پر اضافی بوجھ کی وجہ بھی بنے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے افغان پناہ گزینوں کی موجودگی کے باعث متاثر ہونے والے علاقوں کی بحالی اور وہاں کی آبادی کے لیے بہتر سہولتوں کی فراہمی کے ’راہا‘ نامی منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔
اس منصوبے کے تحت اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین یو این ایچ سی آر نے صوبہ خیبر پختون خواہ کے ضلع ہری پور میں بھی افغان اور پاکستانی خواتین کو فنی تربیت کی فراہمی کے لیے ایک مرکز قائم کیا ہے جو یکم اکتوبر سے باضابطہ طور پر کام شروع کر دے گا۔
یو این ایچ سی آر کی اسلام آباد میں ترجمان دنیا اسلم خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ضلع ہری پور میں خواتین کی بڑی تعداد دست کاری میں مہارت رکھتی ہے، مگر بیشتر خواتین اپنی صلاحیتوں کا استعمال مالی فائدے کے لیے نہیں کرتی ہیں۔
’’اس مرکز میں خواتین کو دستکاری سے متعلق اشیاء مارکیٹ میں متعارف کروانے کی تربیت اور اس عمل میں مدد فراہم کی جائے گی ... (ساتھ ہی اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ) افغان اور پاکستانی خواتین جو ہنر جانتی ہیں وہ ایک دوسرے کو سیکھائیں گی، جس سے ان کے درمیان رابطے بڑھیں گے اور اُنھیں مالی فوائد بھی حاصل ہوں گے۔‘‘
دنیا اسلم خان نے بتایا کہ 2009ء میں شروع کیا گیا راہا منصوبہ ابتداء میں صوبہ بلوچستان اور خیبر پختون خواہ تک محدود تھا، تاہم گزشتہ برس اس کو صوبہ سندھ، پنجاب اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں تک بڑھا دیا گیا۔
حکومتِ پاکستان 16 لاکھ سے زائد اندراج شدہ افغان پناہ گزینوں کے قانونی حیثیت سے ملک میں قیام کی مدت میں 2015ء کے اختتام تک توسیع کے فیصلے کا اعلان کر چکی ہے۔
یو این ایچ سی آر کی ترجمان نے بتایا کہ ان پناہ گزینوں کا مطالبہ ہے کہ اُن کو جاری کی گئی شناختی دستاویز کی بنیاد پر اُنھیں پاکستانی بینکوں میں اکاؤنٹ کھلوانے اور ڈرائیونگ لائسنس اور موبائل فون کے کنیکشن حاصل کرنے کی اجازت دی جائے۔
اُنھوں نے اس مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام خود پاکستان کے لیے بھی مفید ثابت ہوگا۔
’’ابھی یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی افغان پناہ گزین کاروبار کے شعبے سے وابستہ ہے اور اس کے پاس بینک میں جمع کروانے کے لیے معقول رقم موجود ہے تو وہ شناختی دستاویز کے باوجود اکاؤنٹ نہیں کھلوا سکتا، جس وجہ سے وہ اپنا پیسہ گھر میں رکھتا ہے اور اس سے ریاست کو ئی فائدہ نہیں پہنچتا۔‘‘
دنیا اسلم خان نے کہا کہ اُن کا ادارہ اس سلسلے میں حکومتِ پاکستان سے رابطے میں ہے۔
پاکستان گزشتہ تین دہائیوں سے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے، جو ملک میں بنیادی ڈھانچے پر اضافی بوجھ کی وجہ بھی بنے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے افغان پناہ گزینوں کی موجودگی کے باعث متاثر ہونے والے علاقوں کی بحالی اور وہاں کی آبادی کے لیے بہتر سہولتوں کی فراہمی کے ’راہا‘ نامی منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔
اس منصوبے کے تحت اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین یو این ایچ سی آر نے صوبہ خیبر پختون خواہ کے ضلع ہری پور میں بھی افغان اور پاکستانی خواتین کو فنی تربیت کی فراہمی کے لیے ایک مرکز قائم کیا ہے جو یکم اکتوبر سے باضابطہ طور پر کام شروع کر دے گا۔
یو این ایچ سی آر کی اسلام آباد میں ترجمان دنیا اسلم خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ضلع ہری پور میں خواتین کی بڑی تعداد دست کاری میں مہارت رکھتی ہے، مگر بیشتر خواتین اپنی صلاحیتوں کا استعمال مالی فائدے کے لیے نہیں کرتی ہیں۔
’’اس مرکز میں خواتین کو دستکاری سے متعلق اشیاء مارکیٹ میں متعارف کروانے کی تربیت اور اس عمل میں مدد فراہم کی جائے گی ... (ساتھ ہی اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ) افغان اور پاکستانی خواتین جو ہنر جانتی ہیں وہ ایک دوسرے کو سیکھائیں گی، جس سے ان کے درمیان رابطے بڑھیں گے اور اُنھیں مالی فوائد بھی حاصل ہوں گے۔‘‘
دنیا اسلم خان نے بتایا کہ 2009ء میں شروع کیا گیا راہا منصوبہ ابتداء میں صوبہ بلوچستان اور خیبر پختون خواہ تک محدود تھا، تاہم گزشتہ برس اس کو صوبہ سندھ، پنجاب اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں تک بڑھا دیا گیا۔
حکومتِ پاکستان 16 لاکھ سے زائد اندراج شدہ افغان پناہ گزینوں کے قانونی حیثیت سے ملک میں قیام کی مدت میں 2015ء کے اختتام تک توسیع کے فیصلے کا اعلان کر چکی ہے۔
یو این ایچ سی آر کی ترجمان نے بتایا کہ ان پناہ گزینوں کا مطالبہ ہے کہ اُن کو جاری کی گئی شناختی دستاویز کی بنیاد پر اُنھیں پاکستانی بینکوں میں اکاؤنٹ کھلوانے اور ڈرائیونگ لائسنس اور موبائل فون کے کنیکشن حاصل کرنے کی اجازت دی جائے۔
اُنھوں نے اس مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام خود پاکستان کے لیے بھی مفید ثابت ہوگا۔
’’ابھی یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی افغان پناہ گزین کاروبار کے شعبے سے وابستہ ہے اور اس کے پاس بینک میں جمع کروانے کے لیے معقول رقم موجود ہے تو وہ شناختی دستاویز کے باوجود اکاؤنٹ نہیں کھلوا سکتا، جس وجہ سے وہ اپنا پیسہ گھر میں رکھتا ہے اور اس سے ریاست کو ئی فائدہ نہیں پہنچتا۔‘‘
دنیا اسلم خان نے کہا کہ اُن کا ادارہ اس سلسلے میں حکومتِ پاکستان سے رابطے میں ہے۔