نیویارک ہر سال اقوامِ متحدہ كے سالانہ اجلاس میں شركت كے لیے دنیا بھر سے آنے والے ہزاروں سفارت كاروں اور صحافیوں كی میزبانی كرتا ہے۔ اس دوران، اقوامِِِ متحدہ كی عمارت سے ملحقہ علاقے میں كہیں كسی ملک كے سربراہ كے حق میں تو كہیں كسی كےخلاف مظاہرے ہوتے ہیں۔
شہر کے مین ہیٹن علاقے كا ٹریفک ہمیشہ ہی زیادہ ہوتا ہے۔ لیكن، اقوامِ متحدہ كے سالانہ اجلاس كے دوران، ٹریفک جام اور بھی شدید ہو جاتا ہے، جو صورتِ حال شہریوں كے لیے پریشانی كا باعث بنتی ہے۔
جونیل نروٴاز طالب علم ہیں۔ وہ كہتے ہیں كہ اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس کے دوران، پبلک ٹرانسپورٹ میں رش بہت بڑھ جاتا ہے۔ بقول اُن کے، ’ایسے میں، ٹرینیں اپنے مقررہ اوقات سے تاخیر سے چلتی ہیں۔ میں نہیں جانتا ایسا كیوں ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے، میں ایک دن اپنے سكول دیر سے پہنچا۔‘
آراسیلی بنیتو، بچوں كی آیا كا كام كرتی ہیں۔ وہ كہتی ہیں كہ آنے جانے میں تھوڑی بہت مشكل تو ہوتی ہے۔ لیكن، یہ صرف ایک ہفتے كے لیے ہوتا ہے۔ اس لیے، انہیں زیادہ پریشانی نہی ہوتی۔
لیكن، اقوامِ متحدہ كی عمارت كے سامنے والی ایک عمارت میں ’انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایجوكیشن‘ میں كام كرنے والی نینا ہافن سٹائن كے لیے روزانہ دفتر پہنچنا عام دنوں كی طرح نہیں۔ اُن کے الفاظ: ’مجھے ہر صبح سیكورٹی چیک سے گزرنا پڑتا ہے۔ میرے دفتر كی عمارت میں سیكورٹی بہت سخت كر دی جاتی ہے۔ بہت زیادہ پولیس كی موجودگی كے علاوہ باقی چیزیں ٹھیک ہیں۔‘
كوئی اتنی سیكورٹی اور رش سے تنگ آجاتا ہے، تو كوئی اس اجلاس كا انتظار كر رہا ہوتا ہے۔ اقوامِ متحدہ كے آس پاس كی كافی شاپس، رستوراں اور دوكانیں ہر وقت گاہكوں سے کھچا کھچ بھری رہتی ہیں۔ محمد ابراہیم سیكنڈ ایونیو اور ایسٹ 45 سٹریٹ پر قائم ایک گارمنٹس سٹور ’یو این لمیٹڈ‘ كے منیجر ہیں۔
وہ كہتے ہیں، ’ہمیں ہر سال ستمبر كے مہینے كا انتظار ہوتا ہے، كیونكہ ہم اس مہینے میں كرسمس سے بھی زیادہ كاروبار كرتے ہیں۔ دنیا بھر سے اس اجلاس میں آنے والے لوگ ہمارے پاس خریداری كے لیے آتے ہیں۔‘
بعض كاروبار مالكان كے مطابق، اقوامِ متحدہ كے سالانہ اجلاس كے دوران، مڈٹاوٴن كے علاقے میں كاروباری سرگرمیوں میں 50 سے 70 فیصد تک اضافہ ہو جاتا ہے۔