ایسے میں جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے لیے عالمی سربراہان کی آمد کا سلسلہ جاری ہے، امریکہ ایران تناؤ نے شدت اختیار کر لی ہے، جس کے نتیجے میں عالمی درجہ حرارت کے عنوان پر طلب کیا گیا سربراہ اجلاس نظروں سے اوجھل ہوتا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل، اینتونیو گئیترس نے بدھ کو اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’آئیے مل کر مقابلہ کرتے ہیں۔ ہمارے پاس وقت کم ہے۔ ہم موسمیاتی تبدیلی سے مقابلے کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں‘‘۔
انھوں نے کہا کہ ’’فوری اقدام کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق سربراہ اجلاس طلب کیا ہے۔‘‘
یہ سربراہ اجلاس 23 ستمبر کو ہوگا جس میں 100 سے زائد سربراہان مملکت و حکومت کی شرکت متوقع ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس اجلاس میں صرف انہی حضرات کو بولنے کی دعوت دی جائے گی جو عالمی تپش کے اثرات کا مداوا کرنے کے لیے ٹھوس اور قابل عمل تجاویز پیش کریں گے۔
گئیترس نے موسمیاتی تبدیلی کو اولین ترجیح قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ آئندہ عشرے کے دوران کاربن کے اخراج میں نمایاں کمی لانے کے لیے ’’بامقصد لائحہ عمل‘‘ سامنے آنے کی توقع ہے، جب کہ ہدف یہ ہونا چاہیے کہ 2050ء تک کاربن کا اخراج نصف کیا جائے۔
بقول ان کے، ’’ہماری کوشش یہ ہے کہ ایسے منصوبے تیار کیے جائیں جن سے کوئلے کا استعمال کم ہو، کاربن کے اخراج میں کمی لائی جائے، دھواں پیدا کرنے والے ایندھن کا استعمال کم سے کم ہو اور مضر صحت آلودگی کا متبادل تلاش کیا جائے۔‘‘
اقوام متحدہ اس بات کی خواہاں ہے کہ 2015ء میں پیرس میں جس موسمیاتی تبدیلی کے سمجھوتے پر دستخط کیے گئے تھے، اس پر عمل درآمد کیا جائے، جس میں زمین کا درجہ حرارت دو ڈگری سینٹی گریڈ کم کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے مؤثر طور پر نبرد آزما ہونے کی ضرورت ہے، جس کے لیے اہداف کو مزید ٹھوس بنانا ہوگا۔
تاہم مشرق وسطیٰ کا حالیہ بحران موسیماتی تبدیلی کے لیے درکار لائحہ عمل تشکیل دینے پر حاوی آتا جا رہا ہے۔
چودہ ستمبر کو سعودی عرب کی تیل کی دو تنصیبات پر حملہ ہوا جس کے نتیجے میں تیل کی عالمی رسد کو خطرہ لاحق ہوا۔ حوثی باغیوں نے حملے کی ذمے داری قبول کی، جن کے خلاف یمن میں سعودی عرب صف آرا ہے۔ امریکہ کا خیال ہے کہ حملے میں ایران ملوث ہے۔
حملے کے بعد توقع تھی کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران صدر ٹرمپ اور ایرانی صدر حسن روحانی کی ملاقات ہوگی۔ لیکن اس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔
اگست کے اواخر میں فرانس میں ’گروپ آف سیون‘ کے رکن اہم صنعتی ملکوں کا اجلاس ہوا جس کے بعد فرانس کے صدر امانوئیل مکخواں نے امریکہ اور ایران کے صدور کی ملاقات کے لیے کوششیں تیز کر دی تھیں۔
صدر ٹرمپ کئی بار ایسی ملاقات کی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں۔ انھوں نے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کو حال میں برطرف کیا، جو ان کی انتظامیہ میں اس ملاقات کے خلاف سمجھے جاتے تھے۔