رسائی کے لنکس

ترقیاتی اہداف کے حوالے سے اقوام متحدہ کا انتباہ


اقوام متحدہ صدر دفاتر ، فائل فوٹو
اقوام متحدہ صدر دفاتر ، فائل فوٹو

ویب ڈیسک۔ اقوام متحدہ نے ایک گھمبیر رپورٹ میں خبردار کیا کہ اس وقت عالمی ترقی کی موجودہ شرح پر 575 ملین لوگ اب بھی انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں اور 2030 میں چوراسی ملین بچے اسکول نہیں جا سکیں گے۔ اس کے علاوہ مردوں اور عورتوں کے درمیان مساوی حقوق قائم کرنے میں دو سو چھیاسی برس لگ جائیں گے۔

2015 میں عالمی رہنماؤں کی جانب سے دنیا کے سات ارب سے زیادہ لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے وسیع پیمانے پر اقوام متحدہ کے سترہ اہداف کی منظوری دی گئی تھی۔

ان اہداف کے حصول میں کی جانے والی پیشرفت کے بارے میں ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ماہرین نے جن ایک سو چالیس مخصوص اہداف کا جائزہ لیا ہے ان میں سے اس دہائی کے اختتام تک صرف پندرہ فیصد کا حصول ہی ممکن ہو سکے گا۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نصف کے قریب اہداف بڑی حد تک راستے سے ہٹے ہوئے ہیں جبکہ تیس فیصد میں کوئی پیش رفت ہوئی نہیں ہے۔ ان اہداف میں غربت، بھوک اور آب و ہوا جیسے اہم مسائل شامل ہیں۔

2030 کےلیے مقر کردہ اہداف میں اس بات کو یقینی بنانا شامل ہے کہ بھوک کا خاتمہ کیا جائے اور کسی کی بھی یومیہ اجرت دو ڈالر پندرہ سینٹ سے کم نہ ہو, ہر بچے کو معیاری پرائمری اور سیکنڈری اسکول کی تعلیم فراہم کی جائے ، صنفی مساوات کا حصول ممکن ہو، تمام لوگوں کے لیے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے ، حفظان صحت اور سستی توانائی تک رسائی ہو، عدم مساوات کو کم کیا جائے اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے فوری اقدام اٹھائے جائیں ۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس ، فائل فوٹو
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس ، فائل فوٹو

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے رپورٹ کے ابتدائیے میں کہا کہ ’’ اگر ہم اس وقت عمل نہیں کرتے تو 2030 کا ایجنڈا دنیا کے لیے ایک کتبہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ترقی کرنے میں ناکامی کا مطلب ہے کہ عدم مساوات کا مسئلہ اور بھی شدت اختیار کر لے گاجس سے دنیا کے ٹوٹنے اور تقسیم ہونے کا خطرہ بڑھتا جائے گا ‘‘۔

یہ رپورٹ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عالمی رہنماؤں کے سربراہی اجلاس سے قبل جاری کی گئی ہےجسے سیکریٹری جنرل ’’ صداقت اور پرکھ کا لمحہ‘‘ قرار دیتے ہیں ۔

اقتصادی اور سماجی امور (ECOSOC)کے انڈر سیکرٹری جنرل لی جون ہوا نے کہا کہ مختلف تنازعات اہداف کے حصول کی طرف محنت سے کی جانے والی پیشرفت کے لیے خطرہ ہیں۔

ان مسائل میں یوکرین کی جنگ، موسمیاتی تبدیلی، کووڈ کی وبا کے دیرپا اثرات اور خاص طور پر ترقی پذیر ممالک پر اس کے تباہ کن مالی اثرات اور جغرافیائی و سیاسی کشیدگیاں شامل ہیں۔

ورلڈ ریفیوجیز
ورلڈ ریفیوجیز

ECOSOC کے سربراہ نے کہا کہ’’ مئی 2023 تک جنگ، تنازعات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تباہ کن نتائج نے ایک سو دس ملین افراد کو بے گھر کر دیا جن میں سے پینتیس ملین پناہ گزین تھے ۔ یہ اب تک ریکارڈ کی گئی سب سے زیادہ تعداد ہے ‘‘۔

لی نے ایک نیوز کانفرنس میں ر پورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اقوام متحدہ اس بات کا خواہاں ہے کہ ستمبر کے سربراہی اجلاس میں سیاسی رہنما 2030 تک اہداف کے حصول کے لیے عالمی، علاقائی اور قومی سطح پر سرگرمیوں کو تیز کرنے کے لیے ’’ایک نیا روڈ میپ‘‘ لے کر آئیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سات سال باقی ہیں جبکہ منظور کردہ اہداف کے حصول میں ’’ انتہائی مشکل ‘‘ کا سامناہےاور خطرے سے آگاہ کرنے کا وقت آ گیا ہے۔

لی کا کہنا ہے کہ موجودہ شرح سے کام کرتے ہوئے 2030 میں نہ صرف 575 ملین لوگ انتہائی غربت کی زندگی گزاریں گے بلکہ صرف ایک تہائی ممالک ہی قومی غربت کی سطح کو نصف تک کم کرنے کا ہدف پورا کر سکیں گے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ دنیا میں بھوک اس سطح پر آ گئی ہے جو 2005 کے بعد سے نہیں دیکھی گئی تھی اوربیشتر ممالک میں خوراک کی قیمتیں 2015 سے 2019 کے عرصے کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔

جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ برسوں سے کم سرمایہ کاری اور سیکھنے کے عمل میں ہونے والے نقصانات کا مطلب یہ ہے کہ2030 میں نہ صرف اندازاً 84 ملین بچے سکول سے نکل جائیں گے بلکہ تقریباً 300 ملین طلباء کامیاب زندگی کے لیے درکار بنیادی خواندگی اور حساب کی مہارتوں سے محروم ہوں گے۔

اس کے علاوہ چھ میں سے صرف ایک ملک یونیورسل سیکنڈری اسکول کی تکمیل کا ہدف حاصل کر سکے گا۔

پھر گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کا مسئلہ بھی ہے جس کے بارے میں رپورٹ کہتی ہے کہ ’’اگر کبھی ہمارے مروجہ معاشی اور سیاسی نظاموں میں کوتاہ نظری کی گئی تو یہ فطرت کے خلاف جنگ کا آغاز ہو گا ‘‘۔

(اس رپورٹ کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں)

XS
SM
MD
LG