اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مغربی رکن ممالک نے شام کے کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق اپنے تحفظات اورخدشات کا اظہار کیا ہے۔
ان ارکان کا کہنا ہے کہ دمشق کی طرف سے گزشتہ سال معائنہ کاروں کو فراہم کی گئی کیمیائی ہتھیاروں کی تنصیبات کی فہرستوں سے متعلق شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ اور کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق تنظیم (او پی سی ڈبلیو) کے مشترکہ مشن کی سربراہ سیگریڈ کاگ کے ساتھ 15 رکنی کونسل کے ارکان کا بند کمرہ اجلاس ہوا جس میں ان تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا۔
کونسل کے ایک مندوب کے مطابق بعض ارکان کا کہنا ہے کہ شام کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق بہت سے سوالات ابھی تک جواب طلب ہیں اور اس تشویش کو دور کیا جانا چاہیئے۔
بعد ازاں کاگ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ اب بھی خطرناک کیمیائی مواد سے بھرے 16 کنٹینرز شام سے منتقلی کے لیے تیار ہیں لیکن ان کے بقول یہ ان علاقوں میں ہیں جو دمشق سے دور اور شورش زدہ علاقوں میں ہیں۔
انھوں نے شام میں لڑائی میں مصروف گروپوں پر اثر و رسوخ رکھنے والے ملکوں سے درخواست کی کہ وہ ان علاقوں تک رسائی کے لیے مدد کریں تاکہ ان کنٹینرز کو لاتاکیہ کی بندرگاہ پر لایا جا سکے۔
بین الاقوامی کوششوں سے ایک معاہدے کے تحت شام کو اپنے تمام کیمیائی ہتھیار گزشتہ ماہ کی 27 تاریخ تک تلف کرنا تھے۔
گزشتہ سال اگست میں شام کے ایک علاقے میں کیمیائی ہتھیاروں کے حملے میں کم ازکم سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے کے بعد مغربی قوتوں اور امریکہ نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اس کا ذمہ دار شام کی حکومت کو ٹھہرایا تھا لیکن دمشق اسے مسترد کرتے ہوئے اس کا الزام باغیوں پر عائد کرتا ہے۔
ان ارکان کا کہنا ہے کہ دمشق کی طرف سے گزشتہ سال معائنہ کاروں کو فراہم کی گئی کیمیائی ہتھیاروں کی تنصیبات کی فہرستوں سے متعلق شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ اور کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق تنظیم (او پی سی ڈبلیو) کے مشترکہ مشن کی سربراہ سیگریڈ کاگ کے ساتھ 15 رکنی کونسل کے ارکان کا بند کمرہ اجلاس ہوا جس میں ان تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا۔
کونسل کے ایک مندوب کے مطابق بعض ارکان کا کہنا ہے کہ شام کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق بہت سے سوالات ابھی تک جواب طلب ہیں اور اس تشویش کو دور کیا جانا چاہیئے۔
بعد ازاں کاگ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ اب بھی خطرناک کیمیائی مواد سے بھرے 16 کنٹینرز شام سے منتقلی کے لیے تیار ہیں لیکن ان کے بقول یہ ان علاقوں میں ہیں جو دمشق سے دور اور شورش زدہ علاقوں میں ہیں۔
انھوں نے شام میں لڑائی میں مصروف گروپوں پر اثر و رسوخ رکھنے والے ملکوں سے درخواست کی کہ وہ ان علاقوں تک رسائی کے لیے مدد کریں تاکہ ان کنٹینرز کو لاتاکیہ کی بندرگاہ پر لایا جا سکے۔
بین الاقوامی کوششوں سے ایک معاہدے کے تحت شام کو اپنے تمام کیمیائی ہتھیار گزشتہ ماہ کی 27 تاریخ تک تلف کرنا تھے۔
گزشتہ سال اگست میں شام کے ایک علاقے میں کیمیائی ہتھیاروں کے حملے میں کم ازکم سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے کے بعد مغربی قوتوں اور امریکہ نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اس کا ذمہ دار شام کی حکومت کو ٹھہرایا تھا لیکن دمشق اسے مسترد کرتے ہوئے اس کا الزام باغیوں پر عائد کرتا ہے۔