واشنگٹن —
اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ عیسائی ملیشیاؤں کے تشدد سے بچنے کے لیے جمہوریہ وسطی افریقہ کا دارالحکومت مسلمانوں سے خالی ہوگیا ہےاور شہر کی تقریباً تمام مسلمان آبادی جانیں بچانے کے لیے محفوظ مقامات پر منتقل ہوگئی ہے۔
اقوامِ متحدہ کی امدادی سرگرمیوں کے سربراہ ویلری آموس کے مطابق جمہوریہ وسطی افریقہ کے دارالحکومت بنگوئی میں ایک لاکھ سے زائد مسلمان آباد تھے جہاں اب صرف 900 مسلمان باقی رہ گئے ہیں۔
جمعے کو جنیوا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عالمی ادارے کی عہدیدار نے بتایا کہ افریقی ملک میں آبادی کا تناسب تبدیل ہورہا ہے اور ملک کے مغربی علاقوں سے بھی مسلمان آبادی کا انخلا جاری ہے۔
ویلی آموس نے کہا کہ اقوامِ متحدہ جمہوریہ وسطی افریقہ کی حکومت کے تعاون سے ملک کے دو سے چار بڑے شہروں میں قیامِ امن کے لیے کوشش کر رہی ہے تاکہ وہاں آبادی کا تنوع برقرار رکھا جاسکے۔
انہوں نے بتایا کہ اس اقدام کا مقصد جمہوریہ وسطی افریقہ کے عوام کو ملکی صورتِ حال مستحکم ہونے کا احساس دلانا ہے۔ ان کےبقول مختلف عقیدے کے لوگوں کے ایک ہی علاقے میں قیام سے عوام کو یہ پیغام ملے گا کہ وہ اب بھی امن و رواداری کے ساتھ ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ جمہوریہ وسطی افریقہ میں خانہ جنگی کاآغاز گزشتہ سال مسلمان باغیوں کی جانب سے ملک کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ہوا تھا۔
مسلمان باغیوں کی جانب سے لوٹ مار، جنسی زیادتیوں اور عام شہریوں کے قتل کے واقعات کے بعد ملک کے عیسائیوں نے بھی اپنی ملیشیائیں تشکیل دے کر مسلمان شہریوں پر پرتشدد حملے شروع کردیے تھے۔
گزشتہ سال سے جاری اس قتل و غارت کے نتیجے میں اس افریقی ملک میں اب تک ہزاروں افراد مارے جاچکے ہیں جب کہ لاکھوں افراد کو اپنی زندگیاں بچانے کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات پر پناہ لینا پڑی ہے۔
اس سے قبل جمعرات کو اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین انتونیو گوٹیریز نے کہا تھا کہ عالمی برادری خاموشی سے جمہوریہ وسطی افریقہ کے مسلمانوں کی 'نسل کشی' ہوتے دیکھ رہی ہے۔
عالمی ادارے کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ پرتشدد واقعات کے بعد علاقے میں بچ جانے والے مسلمانوں کی اکثریت کی بقا کو مستقل خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ جمہوریہ وسطی افریقہ میں جاری نسلی اور مذہبی تشدد کے واقعات سے ملک کی تقسیم کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔
عالمی ادارے کے سربراہ نے حالات پر قابو پانے کے لیے 12 ہزار امن رضاکاروں کی فوج جمہوریہ وسطی افریقہ بھیجنے کی تجویز دی ہے جہاں پہلے ہی افریقی ممالک کے چھ ہزار فوجیوں سمیت فرانس کے 1600 فوجی اہلکار تعینات ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی امدادی سرگرمیوں کے سربراہ ویلری آموس کے مطابق جمہوریہ وسطی افریقہ کے دارالحکومت بنگوئی میں ایک لاکھ سے زائد مسلمان آباد تھے جہاں اب صرف 900 مسلمان باقی رہ گئے ہیں۔
جمعے کو جنیوا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عالمی ادارے کی عہدیدار نے بتایا کہ افریقی ملک میں آبادی کا تناسب تبدیل ہورہا ہے اور ملک کے مغربی علاقوں سے بھی مسلمان آبادی کا انخلا جاری ہے۔
ویلی آموس نے کہا کہ اقوامِ متحدہ جمہوریہ وسطی افریقہ کی حکومت کے تعاون سے ملک کے دو سے چار بڑے شہروں میں قیامِ امن کے لیے کوشش کر رہی ہے تاکہ وہاں آبادی کا تنوع برقرار رکھا جاسکے۔
انہوں نے بتایا کہ اس اقدام کا مقصد جمہوریہ وسطی افریقہ کے عوام کو ملکی صورتِ حال مستحکم ہونے کا احساس دلانا ہے۔ ان کےبقول مختلف عقیدے کے لوگوں کے ایک ہی علاقے میں قیام سے عوام کو یہ پیغام ملے گا کہ وہ اب بھی امن و رواداری کے ساتھ ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ جمہوریہ وسطی افریقہ میں خانہ جنگی کاآغاز گزشتہ سال مسلمان باغیوں کی جانب سے ملک کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ہوا تھا۔
مسلمان باغیوں کی جانب سے لوٹ مار، جنسی زیادتیوں اور عام شہریوں کے قتل کے واقعات کے بعد ملک کے عیسائیوں نے بھی اپنی ملیشیائیں تشکیل دے کر مسلمان شہریوں پر پرتشدد حملے شروع کردیے تھے۔
گزشتہ سال سے جاری اس قتل و غارت کے نتیجے میں اس افریقی ملک میں اب تک ہزاروں افراد مارے جاچکے ہیں جب کہ لاکھوں افراد کو اپنی زندگیاں بچانے کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات پر پناہ لینا پڑی ہے۔
اس سے قبل جمعرات کو اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین انتونیو گوٹیریز نے کہا تھا کہ عالمی برادری خاموشی سے جمہوریہ وسطی افریقہ کے مسلمانوں کی 'نسل کشی' ہوتے دیکھ رہی ہے۔
عالمی ادارے کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ پرتشدد واقعات کے بعد علاقے میں بچ جانے والے مسلمانوں کی اکثریت کی بقا کو مستقل خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ جمہوریہ وسطی افریقہ میں جاری نسلی اور مذہبی تشدد کے واقعات سے ملک کی تقسیم کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔
عالمی ادارے کے سربراہ نے حالات پر قابو پانے کے لیے 12 ہزار امن رضاکاروں کی فوج جمہوریہ وسطی افریقہ بھیجنے کی تجویز دی ہے جہاں پہلے ہی افریقی ممالک کے چھ ہزار فوجیوں سمیت فرانس کے 1600 فوجی اہلکار تعینات ہیں۔