رسائی کے لنکس

اقوام متحدہ اور حقوق کے اداروں کا دو افغان صحافیوں کی رہائی کا مطالبہ


طالبان جنگجو کابل میں 28 دسمبر کو ہونے والے ایک احتجاجی مظاہرے کی کوریج کرنے والے ایک صحافی کی جانب بڑھ رہے ہیں (فائل: اے ایف پی)
طالبان جنگجو کابل میں 28 دسمبر کو ہونے والے ایک احتجاجی مظاہرے کی کوریج کرنے والے ایک صحافی کی جانب بڑھ رہے ہیں (فائل: اے ایف پی)

ایمنسٹی انٹرنیشنل اور افغانستان کے اندر موجود اقوام متحدہ کے امدادی مشن نے طالبان کی جانب سے دو صحافیوں کی گرفتاری کی مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ وہ تحویل میں لیے جانے والے صحافیوں کی بارے میں معلومات فراہم کریں کہ ان کو کہاں رکھا گیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی طالبان کے اس طرح کے اقدامات کو آزادی اظہار کے لیے شدید خطرہ قرار دیا ہے۔

اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے لیے ایاز گل کی رپورٹ کے مطابق طالبان نے دو افغان صحافیوں کو گرفتار کر لیا ہے جو مقامی ٹیلی ویژن چینلز کے لیے کام کر رہے تھے۔ طالبان کی طرف سے اس اقدام کو عسکریت پسند گروپ کے گزشتہ سال اگست میں اقتدار میں آنے کے بعد مخالفین پر بڑھتے ہوئے حملوں کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

افغان صحافیوں کی یہ گرفتاریاں ایسے وقت میں عمل میں لائی گئی ہیں جب دارالحکومت کابل سے دو سرگرم خواتین لا پتہ ہو چکی ہیں اور اس حوالے سے بھی طالبان پر الزام ہے کہ انہوں نے ہی ان خواتین کو حراست میں لے رکھا ہے۔

افغانستان میں ذرائع ابلاغ کی آزادی کے حامیوں نے الزام عائد کیا ہے کہ آریانہ ٹی وی کے رپورٹروں وارث حسرت اور اسلم حجاب کو طالبان فورسز نے پیر کی سہہ پہر ایسے میں اٹھا لیا جب وہ دارالحکومت میں کھانا کھانے کے لیے باہر نکلے تھے۔

افغانستان میں پریس فریڈم پر کام کرنے والے ایک غیر جانبدار افغان گروپ ’ فری سپیچ حب‘ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان رپورٹروں کو تحویل میں لیے جانے کی وجہ ابھی واضح نہیں ہے۔

افغانستان میں موجود اقوام متحدہ کے امدادی مشن ( UNAMA ) نے بھی منگل کے روز طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ صحافیوں کی گرفتاری کا مسئلہ حل کریں اور یہ بھی واضح کریں کہ تحویل میں لی گئی سرگرم خواتین کارکنوں کو کہاں رکھا گیا ہے۔

مشن نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر کہا ہے کہ ادارے کو میڈیا اور آزادی اظہار پر تشویش بڑھ رہی ہے۔ اقوام متحدہ طالبان پر زور دیتا ہے کہ وہ اس بارے میں عوام کو بتائیں کہ (آریانہ نیوز کے رپورٹروں کو) کیوں گرفتار کیا گیا اور یہ کہ طالبان افغان عوام کے حقوق کا احترام کریں۔

طالبان عہدیداروں نے اس واقع پر تاحال ردعمل نہیں دیا ہے۔ آریانہ ٹیلی ویژن کے عہدیداروں نے کہا ہے کہ طالبان نے اس بارے میں جامع تحقیقات کا وعدہ کیا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی منگل کےروز مطالبہ کیا کہ طالبان حکمران صحافیوں کو فی الفوراورغیر مشروط انداز میں رہا کریں۔

انسانی حقوق کے عالمی ادارے نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ''آریانہ نیوز کے دو صحافیوں کی طالبان کے ہاتھوں غیر قانونی گرفتاری کا کوئی جواز نہیں ہے۔ آزادی صحافت پر اس طرح کے حملے آزادی اظہار کے لیے شدید خطرہ ہیں‘‘۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا مزید کہنا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ طالبان پر زور دیں کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کریں اور یہ ان کو اس ضمن میں جوابدہ ٹھہرایا جائے۔

دو سرگرم خواتین دو ہفتے قبل اس وقت لا پتہ ہو گئی تھیں جب انہوں نے کابل میں ایک احتجاجی ریلی میں شرکت کی تھی۔ اس احتجاج میں خواتین کے حقوق کا مطالبہ کیا گیا تھا اور خواتین کے حجاب پہننے سے متعلق طالبان کے احکامات کی مذمت کی گئی تھی۔

اسلامی عسکریت پسند گروپ نے انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں پر حملے کیے ہیں، حکومت کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کو طاقت کے استعمال سے منتشر کیا ہے اور ایسے متعدد صحافیوں کو ایذا پہنچائی ہیں جنہوں نے حکومت کی اجازت کے بغیر ہونے والے ان مظاہروں کی کوریج کی ہے۔

طالبان نے گزشتہ ہفتے افغان میڈیا ایڈووکیسی گروپ کو کابل میں ایک پریس کانفرنس کرنے سے روک دیا تھا جس کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی تھی۔

XS
SM
MD
LG