اسلام آباد —
پاکستان میں ’’جبری گمشدگیوں‘‘ کے واقعات کے بارے میں معلومات جمع کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے ماہرین کا ایک وفد 10 ستمبر کو اسلام آباد پہنچے گا۔
جنیوا سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ حکومت کی دعوت پر جبری گمشدگیوں کے بارے میں اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہوگا اور وفد کے ارکان 20 ستمبر تک ملک میں قیام کریں گے۔
’’اپنے دورے کے دوران اقوام متحدہ کے ماہرین جبری گمشدگیوں کے واقعات کے بارے میں معلومات جمع کریں گے۔ وہ اُن اقدامات بشمول سچائی، انصاف اور متاثرین کی بحالی سے متعلق اُمور کا بھی جائزہ لیں گے جو ریاست نے جبری گمشدگیوں کو روکنے اور ان کے خاتمے کے لیے کیے ہیں۔‘‘
ورکنگ گروپ اولیور ڈی فروائل کی سربراہی میں ملک کے مختلف حصوں کا دورہ کر کے مرکز اور صوبائی سطح پر ریاستی افسران، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور لاپتا افراد کے رشتہ داروں سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
امریکہ کا اتحادی بننے کے بعد پاکستان میں سکیورٹی حکام بالخصوص انٹیلی جنس ایجنسی ’آئی ایس آئی‘ کو انسداد دہشت گردی کی مہم کی آڑ میں لا تعداد مشتبہ افراد کو غیرقانونی طورپر طویل عرصے تک حراست میں رکھنے کے الزامات کا سامنا ہے۔ ان ’’جبری گمشدگیوں‘‘ سے متاثرہ خاندانوں کو بھی بے خبر رکھا جاتا ہے۔
حالیہ چند برسوں کے دوران بلوچستان میں علیحدگی پسند بلوچ تنظیموں کا سر کچلنے کے لیے سلامتی سے متعلق ریاستی اداروں پر تسلسل کے ساتھ بڑی تعداد میں قوم پرست بلوچوں کو ماورائے قانون گرفتار کرنے کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔
بلوچستان میں متاثرہ خاندانوں اور اُن کی حمایت میں آواز بلند کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کے جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے روز کا معمول بن چکے ہیں جبکہ سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے کی چھان بین کے سلسلے میں متعلقہ ریاستی اداروں سے جواب طلبی کے لیے ازخود عدالتی کارروائی شروع کر رکھی ہے۔
جبری گمشدگیوں سے متعلق اقوام متحدہ کا مشن دورہ پاکستان کے اختتام پر اپنی حتمی رپورٹ عالمی تنظیم کی کونسل برائے انسانی حقوق کو پیش کرے گا۔
یہ ورکنگ گروپ دنیا کے تمام خطوں سے تعلق رکھنے والے پانچ غیر جانبدار ماہرین پر مشتمل ہے۔
لاپتا افراد کا کھوج لگانے میں اُن کے خاندانوں کی مدد کے لیے اقوام متحدہ کے کمشن برائے انسانی حقوق نے 1980ء میں یہ ورکنگ گروپ قائم کیا تھا جس کا کام متاثرہ خاندانوں اور متعلقہ حکومتوں کے درمیان رابطوں کے ذریعے ماورائے قانون جبری گمشدگیوں کو روکنے کے عمل کو یقینی بنانا ہے۔
جنیوا سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ حکومت کی دعوت پر جبری گمشدگیوں کے بارے میں اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہوگا اور وفد کے ارکان 20 ستمبر تک ملک میں قیام کریں گے۔
’’اپنے دورے کے دوران اقوام متحدہ کے ماہرین جبری گمشدگیوں کے واقعات کے بارے میں معلومات جمع کریں گے۔ وہ اُن اقدامات بشمول سچائی، انصاف اور متاثرین کی بحالی سے متعلق اُمور کا بھی جائزہ لیں گے جو ریاست نے جبری گمشدگیوں کو روکنے اور ان کے خاتمے کے لیے کیے ہیں۔‘‘
ورکنگ گروپ اولیور ڈی فروائل کی سربراہی میں ملک کے مختلف حصوں کا دورہ کر کے مرکز اور صوبائی سطح پر ریاستی افسران، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور لاپتا افراد کے رشتہ داروں سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
امریکہ کا اتحادی بننے کے بعد پاکستان میں سکیورٹی حکام بالخصوص انٹیلی جنس ایجنسی ’آئی ایس آئی‘ کو انسداد دہشت گردی کی مہم کی آڑ میں لا تعداد مشتبہ افراد کو غیرقانونی طورپر طویل عرصے تک حراست میں رکھنے کے الزامات کا سامنا ہے۔ ان ’’جبری گمشدگیوں‘‘ سے متاثرہ خاندانوں کو بھی بے خبر رکھا جاتا ہے۔
حالیہ چند برسوں کے دوران بلوچستان میں علیحدگی پسند بلوچ تنظیموں کا سر کچلنے کے لیے سلامتی سے متعلق ریاستی اداروں پر تسلسل کے ساتھ بڑی تعداد میں قوم پرست بلوچوں کو ماورائے قانون گرفتار کرنے کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔
بلوچستان میں متاثرہ خاندانوں اور اُن کی حمایت میں آواز بلند کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کے جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے روز کا معمول بن چکے ہیں جبکہ سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے کی چھان بین کے سلسلے میں متعلقہ ریاستی اداروں سے جواب طلبی کے لیے ازخود عدالتی کارروائی شروع کر رکھی ہے۔
جبری گمشدگیوں سے متعلق اقوام متحدہ کا مشن دورہ پاکستان کے اختتام پر اپنی حتمی رپورٹ عالمی تنظیم کی کونسل برائے انسانی حقوق کو پیش کرے گا۔
یہ ورکنگ گروپ دنیا کے تمام خطوں سے تعلق رکھنے والے پانچ غیر جانبدار ماہرین پر مشتمل ہے۔
لاپتا افراد کا کھوج لگانے میں اُن کے خاندانوں کی مدد کے لیے اقوام متحدہ کے کمشن برائے انسانی حقوق نے 1980ء میں یہ ورکنگ گروپ قائم کیا تھا جس کا کام متاثرہ خاندانوں اور متعلقہ حکومتوں کے درمیان رابطوں کے ذریعے ماورائے قانون جبری گمشدگیوں کو روکنے کے عمل کو یقینی بنانا ہے۔