واشنگٹن ۔۔۔ اقوام ِمتحدہ کا کہنا ہے کہ اس سال کی ابتداء سے اب تک ہزاروں لوگ شمالی مالی سے اپنا گھر بار چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ تازہ ترین اندازوں کے مطابق تقریبا سولہ ہزار لوگ ان میں شامل ہیں جو مالی کے اندر ہی بے گھر ہو گئے ہیں جبکہ اکیس ہزار افراد پڑوسی ممالک ماریکانیہ، برکینہ فاسو اور نائگر چلے گئے ہیں۔
اقوام ِ متحدہ کا کہنا ہے کہ گذشتہ مہینے فرانسیسی افواج کے ہاتھوں مسلح باغی گروپوں کو تہس نہس کیے جانے کے باوجود شمالی مالی میں صورتحال خاصی مخدوش ہے۔ انسانی امور کے رابطے سے متعلق اقوام ِ متحدہ کے دفتر کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کے ادارے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں ہولناک اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بچوں کو بدستور فوجیوں کے طور پر بھرتی کیا جا رہا ہے اور جنسی زیادتی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بڑھتی ہوئی زیادتیوں سے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا اہم ضرورت ہے۔ یہی نہیں بلکہ بارودی سرنگوں اور جنگ میں استعمال ہونے والے بچے کچھے دھماکہ خیز مواد سے بھی لوگوں کا تحفظ ضروری ہے۔
ان کے مطابق، ’’میرے لیے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ بارودی سرنگیں کہاں ہیں۔ اس لیے کہ ان کا ابھی تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ وہاں تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔ یہ ایک دوھرے پھندے کی مانند ہے۔ ایک طرف بارودی سرنگیں ہیں جبکہ دوسری جانب جنگ میں استعمال ہونے والے دھماکہ خیز مواد، جن سے ظاہر ہے کہ آبادی کو بہت بڑا خطرہ ہے۔‘‘
اسی دوران بچوں کے لیے اقوام ِ متحدہ کے فنڈ ’یونیسف‘ کا کہنا ہے کہ مالی میں جنگ اور پیدا شدہ بحران نے تقریبا سات لاکھ بچوں کی تعلیم کو متاثر کیا ہے۔ ان میں دو لاکھ ایسے بچے شامل ہیں جنہیں ملک کے شمال اور جنوب میں سکولوں تک رسائی نہیں ہے۔
یونیسف کی خاتون ترجمان کا کہنا ہے کہ جنوری 2012 میں جب سے شمالی مالی میں بغاوت شروع ہوئی تھی، کم سے کم 115سکولوں کو بند کر دیا گیا، وہ برباد ہو گئے یا پھر لوٹ لیے گئے۔ مقبوضہ علاقوں میں سکولوں کو ایسے بارودی مادوں سے خطرہ ہے جو پھٹنے سے رہ گئے تھے۔ خاتون ترجمان نے مزید کہا کہ ملک کے جنوبی علاقے میں سکول ضرورت سے زیادہ بھرے ہوئے ہیں اور وہ شمال سے آنے والے ہزاروں بے گھر طالب علموں کی ضروریات پوری نہیں کر سکتے۔
خاتون ترجمان کے مطابق، ’’اس اعداد و شمار سے اس بحران کی عکاسی ہوتی ہے جس میں ملک کے مختلف علاقے گذشتہ سال کے شروع سے گرفتار ہیں۔ ملک کے شمالی علاقے میں بچوں کی حفاظت کے ھوالے سے ہنگامی صورتحال بھی درپیش ہے اور لاکھوں کی تعداد میں ایسے بچوں کے بارے میں سخت تشویش کا سامنا ہے جو بے گھر ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ انہیں بیماریوں کا خدشہ ہے اور جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں ان کی تعلیم خطرے میں ہے۔‘‘
یونیسف کی خاتون ترجمان نے مزید کہا کہ اس سے پہلے کہ حالات معمول پر آئیں، سینکڑوں سکولوں کو مرمت اور انہیں دوبارہ آباد کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہزاروں اساتذہ کو تربیت درکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ یونیسف لکھنے پڑھنے کا سامان اور نصابی کتابیں مہیا کر رہا ہے۔ دسمبر کے مہینے سے ادارہ، اساتذہ کی تربیت بھی کر رہا ہے تاکہ انہیں نفسیاتی مدد فراہم کی جا سکے اور یہ بتایا جائے کہ بارودی سرنگوں سے بچوں کا کس طرح تحفظ کیا جا سکتا ہے۔
اسی بارے میں لیزا شلن کی رپورٹ مدیحہ انور کی زبانی سنئیے۔
اقوام ِ متحدہ کے فنڈ ’یونیسف‘ کا کہنا ہے کہ مالی میں جنگ اور پیدا شدہ بحران نے تقریبا سات لاکھ بچوں کی تعلیم کو متاثر کیا ہے۔ ان میں دو لاکھ ایسے بچے شامل ہیں جنہیں ملک کے شمال اور جنوب میں سکولوں تک رسائی نہیں ہے۔
واشنگٹن —
مقبول ترین
1